Tuesday, 9 August 2016

ھندکو پنجابیوں کی دھرتی صوبہ سرحد پر پشتونوں کے قبضہ کا حل کیا ھے؟


پنجاب پر 1849 میں قبضہ کرنے کے بعد سے ھی برطانیہ کو ھر وقت یہ فکر لاحق رھتی تھی کہ پنجاب کی شمال مغربی سرحد کے روس کے ساتھ ملنے کی وجہ سے پنجاب کے علاقے میں کہیں روس کی طرف سے مداخلت نہ ھوجائے یا پنجابی قوم کہیں برطانیہ کا پنجاب پر قبضہ ختم کروانے کے لیے روس کے ساتھ مراسم قائم نہ کرلے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ھند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ھندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک کا معاہدہ ھوا۔ جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ھے۔ اس معاھدہ کے مطابق واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے افغانستان 100 سال تک کے لیے دستبردار ھوگیا۔

14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کي حکومت نے برطانيہ کے کیے گئے معاھدے کا احترام کرتے ھوئے ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ برقرار رکھا اور کئی سال تک افغانستان کی حکومت کو مالی معاوضہ ديا جاتا رھا۔ لیکن کابل کی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے پہلے دریائے اٹک تک کے علاقہ پر افغانستان کا قبضہ تھا اور برطانوی راج کے دوران پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنانے کی وجہ سے اس علاقہ میں پشتون آبادکاری ھوچکی ھے۔ اس لیے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کے علاقے کو بھی افغانستان کو دیا جائے۔

جبکہ پنجابیوں کا مؤقف ھے کہ یہ علاقے تاریخی طور پر پنجابی قوم کے علاقے تھے۔ لیکن 1008عیسوی میں ترک نسل سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی نے حملہ آور ھوکر پنجاب کے حکمراں جے پال کے بیٹے آنند پال سے پشاور چھینا تھا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال تخت نشین ھوا اور لاھور پر اس کی عملداری 1022 تک برقرار رھی۔ حتیٰ کہ محمود غزنوی نے لاھور پر بھی حملہ کرکے لاھور کو غزنوی سلطنت کا حصہ بنا لیا اور پھر کبھی بھی کسی ھندو پنجابی کی پنجاب پر حکومت نہ رہ سکی۔ کیونکہ مسلمانوں کے عروج کی وجہ سے ترک مسلمان حکمرانی کرتے رھے۔

ترک نسل کے غوری خاندان کے ھاتھوں غزنوی خاندان کے زوال کے بعد 1187 میں پنجاب پر غوری خاندان نے حکومت کرنا شروع کردی اور محمد غوری کے جانشینوں نے دھلی سلطانہ کے نام سے سلطنت قائم کرکے 1206 سے لیکر 1526 تک راج کیا۔1211 سے لیکر 1290 تک خاندانِ غلاماں کا دور رھا۔ 1290 سے لیکر 1320 تک خلجی دور رھا۔ 1320 سے لیکر 1413 تک تغلق دور رھا۔ 1414 سے لیکر 1451 تک سید دور رھا۔ 1451 سے لیکر 1526 تک لودھی دور رھا۔

1526 میں افغانستان ' پنجاب اور دھلی پر مغل بادشاہ بابر کے قبضے کی وجہ سے دھلی سلطانہ کا زوال ھوا اور 1526 سے لیکر 1748 میں پٹھان احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملے سے پہلے تک پنجاب پر مغلوں کا قبضہ رھا۔ احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر آٹھ بار حملہ کیا۔ 1748 سے لیکر 1767 تک احمد شاہ ابدالی کے حملے ھوتے رھے۔لیکن ھر بار سکھ پنجابیوں کے ھاتھوں نقصان اٹھانا پڑتا رھا۔ اسی لیے 1762 سے لیکر 1767 تک کے احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملے خاص طور پر سکھ پنجابیوں کے خاتمے کے لیے تھے۔ 1798 میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زماں نےپنجاب پر آخری بار حملہ کیا۔ لیکن 1799 میں رنجیت سنگھ کے ھاتھوں شکست کھانے کے بعد لاھور چھوڑ کر بھاگ گیا اور پھر کبھی بھی لاھور پر حملہ آور نہ ھوسکا۔

777 سال تک لاھور پر غیر پنجابیوں کے قبضے کے بعد 7 جولائی 1799 کو پنجابی فاتح کی حیثیت سے رنجیت سنگھ لاھور میں داخل ھوا اور 12 اپریل 1801 میں پنجاب کی سکھ سلطنت قائم کرکے مھاراجہ رنجیت سنگھ نے صدیوں سے پنجابیوں کے مقبوضہ علاقوں کو فتح کرکے پنجاب کی سلطنت میں شامل کرنا شروع کیا۔ 1813 میں اٹک ' 1816 میں مظفر گڑہ ' 1818 میں ملتان ' 1818 میں پشاور ' 1819 میں کشمیر ' 1836 جمرود کا قبضہ واپس حاصل کرکے پنجاب کی سلطنت میں شامل کیا۔

1839 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2 اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دیا۔ جسے 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخواہ کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے آکر پشتون قبضہ کرتے رھے ھیں۔

افغانستان ' پاکستان اور دیگر ممالک میں افغانیوں ' پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی کل آبادی 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار  ھے۔ افغانستان کی 3 کروڑ 25 لاکھ آبادی میں سے افغانیوں کی آبادی ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ھزار  تھی۔ جبکہ ایک کروڑ 88 لاکھ 50 ھزار آبادی میں سے 87 لاکھ 75 ھزار تاجک ' 29 لاکھ 25 ھزار ازبک ' 26 لاکھ ھزارہ ' 13 لاکھ ایمک ' 9 لاکھ 75 ھزار ترکمان تھے۔ لیکن 30 لاکھ افغانیوں کے پاکستان اور 6 لاکھ 50 ھزار افغانیوں کے ایران اور دیگر ممالک میں چلے جانے کی وجہ سے اب افغانستان میں صرف ایک کروڑ افغانی بچے ھیں۔

فاٹا میں 50 لاکھ اور خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ  34 لاکھ 50 ھزار پختون رھتے ھیں۔ بلوچستان میں 44 لاکھ پشتون رھتے ھیں۔ اسلام آباد میں 4 لاکھ ' پنجاب میں 10 لاکھ ' سندھ میں 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی میں 22 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔جبکہ 30 لاکھ افغانی  فاٹا ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ یہ وقت گذرنے کے ساتھ پختون ' پشتون یا پٹھان بن جائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے واپس افغانستان نہیں جانا۔ پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی 3 کروڑ 68 لاکھ آبادی جبکہ 30 لاکھ افغانیوں کی آبادی  کو ملایا جائے تو پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں ' پٹھانوں اور افغانیوں کی کل آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ بنتی ھے۔ اس لیے پشتونوں کے پاس ڈیورنڈ لائن اور پشتونوں کے مسئلے کو حل کرنے کے تین طریقے ھیں۔

ایک طریقہ یہ ھے کہ پاکستان کے 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال کے علاقے کو افغانستان میں شامل کرکے افغانستان کا حصہ بن جائیں۔ لیکن اس صورت میں پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو میں رھنے والے پشتونوں کو واپس افغانستان جانا پڑے گا اور پاکستان آنے کے لیے ویزہ لینا پڑے گا۔

دوسرا طریقہ یہ ھے کہ پاکستان کے 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر پاکستان میں واقع استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال کے علاقے اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں اور افغانستان میں رھنے والے ایک کروڑ پشتونوں کو ملا کر پشتونستان بنا لیں۔ لیکن اس صورت میں پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو میں رھنے والے پشتونوں کو پشتونستان جانا پڑے گا اور پاکستان آنے کے لیے ویزہ لینا پڑے گا۔

تیسرا طریقہ یہ ھے کہ افغانستان کے ایک کروڑ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر اور مشرقی افغانستان کے اپنے پشتون علاقوں کو پاکستان میں شامل کروا کر پاکستان کا حصہ بن جائیں۔

No comments:

Post a Comment