Saturday, 15 December 2018

انگریز نے پنجاب کی تباھی اور پنجابی قوم کی بربادی کی ابتدا کشمیر سے کی

انگریز نے 1846 میں پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال کی طرف کے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری بولنے والے جموں کے علاقے اور پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی بولنے والے کشمیر کے علاقے کو پنجاب سے الگ کرکے جموں و کشمیر کی ریاست تکشکیل دے کر پنجاب کو تباہ جبکہ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو نافذ کرکے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری اور پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی بولنے والے پنجابیوں کو برباد کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد 1849 میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد 1877 سے پنجاب میں اردو زبان کو مسلط کرکے پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت کو مکمل برباد کرنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم کمزور اور پنجابی عوام بدحال ھونے لگی۔ جبکہ انگریز نے پنجاب کو مزید تباہ کرنے کے لیے پنجاب کی زمین کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

1901 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال مغرب کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے ھندکو کے علاقے کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی صوبہ سرحد تکشکیل دے کر وھاں ھندکو پنجابی کو برباد کرنے کے لیے پشتونائزیشن کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔ 1947 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے جنوب مشرق اور مشرق کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے مالوی اور دوآبی کے علاقے کو پنجاب کے ماجھے سے الگ کرکے مشرقی پنجاب کا صوبہ تکشکیل دے کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا۔

پنجاب کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے تاریخی پنجاب چونکہ تباہ ھوچکا ھے جبکہ پنجاب پر 1877 سے اردو کے تسلط کے سبب پنجابی قوم اپنی زبان ' تہذیب اور ثقافت کے کمزور ھوجانے کی وجہ سے برباد ھوچکی ھے۔ اس لیے اب جنوبی پنجاب میں آباد یا قابض ھونے والے بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی پنجاب کو تقسیم کرکے سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سازش کر رھے ھیں۔ تاکہ شاھپوری کے ذیلی لہجوں تھلوچی / تھلی اور ڈیرہ والی جبکہ جھنگوچی کے ذیلی لہجوں ملتانی اور ریاستی / بہاولپوری کے علاقوں پر مشتمل صوبہ بنا کر پنجاب کو مزید تباہ اور پنجابی قوم کو مزید برباد کیا جائے۔

پنجاب کی تہذیب والی زمین معیشت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے زیادہ خوشحال خطہ تھی۔ اس لیے قدرت نے پنجاب کے تحفظ اور خاص طور پر پنجاب کے مرکز کے میدانی علاقے اور ذرعی خطے کو بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہترین انداز میں دفاع کرنے کا اھتمام کیا ھے۔ جبکہ پنجابی قوم کے افراد کا آپس میں سماجی ربط و ضبط قائم رکھنے کا شاندار انتظام کیا ھے۔ تاکہ پنجاب کی زمین پر معیشت کے ساتھ ساتھ زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی فروغ پائے۔ معاشی طور پر پنجاب ایک خوشحال خطہ رھے اور سماجی طور پر پنجابی ایک مظبوط قوم رھے۔

پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی بولنے والوں کا علاقہ "پنجاب کے درمیان کا علاقہ" ھے۔ جبکہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والوں کے علاقے "پنجاب کے ماجھی بولنے والوں اور پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے بولنے والوں کے "سرے کے علاقوں" کے "درمیان والے علاقے" ھیں۔

پنجاب کے "سرے کے علاقوں" میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے 01۔ پوادھی 02۔ بانوالی 03۔ بھٹیانی 04۔ باگڑی 05۔ لبانکی 06۔ کانگڑی 07۔ چمبیالی 08۔ پونچھی 09۔ گوجری 10۔ آوانکاری 11۔ گھیبی 12۔ چھاچھی 13۔ سوائیں 14۔ پشوری/پشاوری 16۔ جاندلی / روھی 17۔ دھنی 18۔ چکوالی 19۔ بھیروچی 20۔ تھلوچی /تھلی 21۔ ڈیرہ والی 22۔ بار دی بولی 23۔ وزیرآبادی 24۔ رچنوی 25۔ جٹکی 26۔ چناوری 27۔ کاچی / کاچھڑی 28۔ ملتانی 29۔ جافری/کھیترانی 30۔ ریاستی / بہاولپوری 31۔ راٹھی / چولستانی بولے جاتے ھیں۔

ماجھی لہجہ پنجابی زبان کا مرکزی یا معیاری لہجہ ھے جو کہ مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے دونوں حصوں میں پنجابی لکھنے کے لیے بنیادی زبان ھے۔ ماجھی لہجہ بولنے والے علاقے کو "ماجھا" کہا جاتا ھے۔ لفظ "ماجھا" کا مطلب "مرکز" یا "درمیان" ھے. ماجھے کا علاقہ جغرافیائی طور پر تاریخی پنجاب کے "درمیان" کے علاقے میں واقع ھے.

پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والے علاقے پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی بولنے والے "پنجاب کے مرکزی علاقے" اور "پنجاب کے سرے کے علاقوں" کو ملانے والے علاقے ھیں۔

ضمنی لہجے بولنے والے پنجابی ' مرکزی لہجہ ماجھی بولنے والے پنجابی کے علاقے کے ساتھ منسلک رھنے اور باھمی مفادات کے لیے آپس میں سماجی و سیاسی تعاون کرنے کے لیے مجبور ھیں۔ جبکہ سرے کے ذیلی لہجے بولنے والے پنجابی ' مرکزی لہجہ ماجھی کے ساتھ منسلک کرنے والے اپنے اپنے پنجابی کے ضمنی لہجے والے پنجابی علاقے کے ساتھ منسلک رھنے اور باھمی مفادات کے لیے آپس میں سماجی و سیاسی تعاون کرنے کے لیے مجبور ھیں۔

ماجھی لہجہ پنجابی زبان کے 8 ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی کو آپس میں جوڑے ھوئے ھے۔ اس لیے پنجابی زبان کے ضمنی لہجے بولنے والے پنجابی زبان کے ماجھی لہجے اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھونے کی صورت میں نہ صرف پنجابی زبان اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھوجاتے ھیں بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑتا ھے۔

پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی نے ایک طرف تو ماجھے کو چاروں طرف سے گھیرا ھوا ھے۔ جبکہ دوسری طرف اپنے اپنے سرے کے علاقوں کو ماجھے سے ملانے کا کردار بھی ادا کرتے ھیں۔ اس لیے پنجاب کے سرے کے علاقے کے پنجابی زبان کے ذیلی لہجے بولنے والے پنجابی اپنے اپنے پنجابی کے ضمنی لہجے سے الگ ھونے کی صورت میں نہ صرف پنجابی زبان اور ماجھے کے علاقے سے الگ ھوجاتے ھیں بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑتا ھے۔

ماجھے کے علاقے والے اپنے چاروں طرف واقع پنجابی کے ضمنی لہجے بولنے والے علاقے کو طاقت فراھم کرتے ھیں جبکہ ضمنی لہجے بولنے والے علاقوں والے ماجھے کے علاقے کو تحفظ فراھم کرتے ھیں۔ ضمنی لہجے بولنے والے علاقوں والے پنجابی کے ذیلی لہجے بولنے والے علاقے کو طاقت فراھم کرتے ھیں جبکہ ذیلی لہجے بولنے والے علاقوں والے ضمنی لہجے بولنے والے علاقے کو تحفظ فراھم کرتے ھیں۔ اس لیے؛

ماجھے کے علاقے ' ضمنی لہجے بولنے والے علاقے اور ذیلی لہجے بولنے والے علاقے اگر آپس میں متحد رھیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں تو؛ پنجاب محفوظ رھتا ھے۔ پنجابی قوم طاقتور رھتی ھے۔ پنجابی عوام خوشحال رھتی ھے۔

ماجھے کے علاقے ' ضمنی لہجے بولنے والے علاقے اور ذیلی لہجے بولنے والے علاقے اگر آپس میں متحد نہ رھیں اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں تو؛ پنجاب غیر محفوظ رھتا ھے۔ پنجابی قوم طاقتور نہیں رھتی ھے۔ پنجابی عوام خوشحال نہیں رھتی ھے۔

1022 میں محمود غزنوی کے پنجاب کی زمین پر قبضے سے لیکر 1799 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کی حکومت بحال کرنے تک پنجاب کی زمین پر بیرونی حملہ آوروں کی حکومت رھی۔ بیرونی حملہ آور پنجاب پر حکومت بھی کرتے رھے اور پنجاب میں لوٹ مار بھی کرتے رھے۔ لیکن پنجاب کی زمین پر 777 سال تک بیرونی حملہ آوروں کی حکمرانی اور لوٹ مار کے باوجود پنجاب ایک رھا۔ پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت محفوظ رھی۔ اس لیے پنجابی قوم کا تشخص برقرار رھا۔ جسکی وجہ سے پنجابی قوم طاقتور اور پنجابی عوام خوشحال رھی۔

لیکن 1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1846 میں انگریز نے پنجاب کے ماجھے کے علاقے کے شمال کی طرف کے پنجابی کے ضمنی لہجے بولنے والے ڈوگری لہجے کے جموں والے اور پہاڑی لہجے کے کشمیر والے علاقوں کو پنجاب سے الگ کرکے جموں و کشمیر کی ریاست تکشکیل دے کر پنجاب کو تباہ کرنا شروع کیا۔ جبکہ ڈوگری پنجابی اور پہاڑی پنجابی کو کمزور کرنے اور اردو زبان کو مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کرکے پنجابی قوم کو برباد کرنا شروع کیا۔ اس عمل سے پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ڈوگری اور پہاڑی بولنے والے پنجابی نہ صرف پنجاب کے ماجھے کے علاقے سے الگ ھوگئے بلکہ انہیں پنجابی زبان کے دیگر ضمنی لہجوں اور ان کے ذیلی لہجوں اور علاقوں سے بھی لاتعلق ھونا پڑا۔

وادی کشمیر تین صوبوں پر مشتمل ھے ۔ 1۔ جموں 2۔ کشمیر 3۔ لدّاخ۔ تینوں صوبوں کے درمیان وسیع و عریض پہاڑی علاقے ھیں۔ جن کی وجہ سے تینوں صوبوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ھیں۔

وادی کشمیر میں زیادہ تر پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی اور ضمنی لہجہ ڈوگری رائج ھے۔ پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ھونے کی وجہ سے ان میں صرف لفظی سرمائے کا اشتراک ھی نہیں ھے بلکہ لسانی قالب اور جملوں کی ساخت پرداخت کی مشابہت بھی پنجابی زبان سے ھے۔ اسکے علاوہ گوجری ' بلتی ' شنا ' بھدرواھی ' بروشتکی اور بکروالی وغیرہ بھی چھوٹی چھوٹی زبانیں ھیں۔

وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ھیں۔ ایک طرف کشمیر وادی کے علاقہ میں جو جھیلوں اور جنگلات ’ دریاؤں اور ندی نالوں ’ سبزہ زاروں اور فلک بوس پہاڑوں کی زمین ھے۔ وھاں کے باسی کثرت سے پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ بولتے ھیں۔ دوسر ی طرف جموں جو اپنے دور دراز علاقوں اور دشوار گزار راستوں کے باعث “دوگرت” کہلاتا تھا اور پنجاب کا ملحقہ علاقہ ھے۔ وھاں پنجابی زبان کے ڈوگری لہجے کو زیادہ اھمیت حاصل ھے۔ پونچھ کا علاقہ جو بے باکی ’ دلیری’ نڈر افراد اور جری جوانوں کی آماجگاہ ھے۔ وھاں کثرت سے پنجابی زبان کے پہاڑی لہجے کو بولا اور سمجھا جاتا ھے۔

وادی کشمیر کا شمالی حصہ جو برف پوش پہاڑوں ’ سنگلاخ چٹانوں اور قدرتی دریاؤں اور جھیلوں کا مرکز ھے۔ جس کو دردستان اور بلورستان کے نام سے یاد کیا جاتا رھا ھے اور عصر حاضر میں گلگت ’ بلتستان یا پھر شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا ھے۔ وھاں شینا ’ بلتی’ پروشسکی’ پوریک ’ گھورا ’ کوھستانی و دیگر زبانیں بولی جاتی ھیں۔

ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں آباد قبائل بھی مختلف زبانیں بولتے اور سمجھتے ھیں۔ مثلا گوجر قبائل کی زبان گوجری کہلاتی ھے جو کہ پنجابی زبان کے پوٹھو ھاری لہجہ کا ذیلی لہجہ ھے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے ضلع نیلم میں ایک گروہ ایسی زبان بولتا ھے جس کو ماھر لسانیات عرصہ دراز تک کوئی واضح نام نہیں دے سکے تھے۔ اب تحقیق کے بعد اس کو کنڈل شاھی زبان کا نام دیا گیا ھے۔

لکھن پور سے بانہال تک کا علاقہ جموں کہلاتا ھے۔ جموں رقبے کے لحاظ سے 8809 مربع میل ھے۔ جموں کی مقامی زبان ڈوگری ھے۔ جموں کو سنسکرت میں دوگرت کہتے ھیں جس کا مطلب دشوار گذار راستوں والا علاقہ ھے اور ڈگر میں بولی جانے والی بولی ڈوگری کہلائی ھے۔ یہ بولی جموں ' ادھم پور ' را م نگر' کٹھوعہ ' بسوھلی اور کانگڈہ میں بولی جاتی ھے۔ ڈوگری زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

قاضی گنڈ سے کشمیر کا علاقہ شروع ھوکر پاکستان کی سرحد پر ختم ھو جاتا ھے۔ کشمیر رقبے کے لحاظ سے 8396 مربع میل ھے۔ کشمیر کی علاقائی زبان پہاڑی ھے۔ پہاڑی زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

لدّاخ کا علاقہ کشمیر کے ایک پہاڑی علاقے سونہ مرگ سے شروع ھوکر چین کی سرحد پر ختم ھوجاتا ھے۔ لدّاخ کو تبّت صغیر بھی کہا جاتا ھے۔ لدّاخ کی علاقائی زبان لدّاخی ھے۔

جموں و کشمیر ھندوستان کی واحد ریاست ھے۔ جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔ ڈوگرہ راج سے قبل سکھوں نے کشمیر پر 1819ء سے 1846ء تک 27 سال حکومت کی۔” مھاراجہ رنجیت سنگھ” سکھ سلطنت کا حکمران اعلیٰ تھا۔ اس نے کشمیر پر یکے بعد دیگرے دس گورنر تعینات کئے۔” گلاب سنگھ” اسی سلطنت کا ایک سپاھی تھا۔ ” مھاراجہ رنجیت سنگھ” نے ”گلاب سنگھ” کی خدمت سے خوش ھوکر اسے 1822 ء میں جموں صوبے کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس وقت کشمیر صوبے پر "لاھور دربار" کی طرف سے امام الدین گورنر مقرر تھا۔ اس وقت ھندوستان میں انگریز حکومت اپنے پر پھلانے میں مصروف تھی۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے 1839 میں انتقال کے بعد جموں صوبے کے گورنر ”گلاب سنگھ” نے خفیہ طور پر انگریزوں سے ساز باز کرلی اور 1846 میں انگریوں کی "لاھور دربار" کے ساتھ جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے کر 16 مارچ 1846 کے معائدہ امرتسر کے بعد انگریزوں سے کشمیرکی وادی 75 لاکھ روپے کے عوض خریدلی۔ جبکہ 1849 میں "لاھور دربار" پر قبضہ کرانے میں بھی ان کی مدد کی۔

ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے کشمیرکو خریدنے کے وقت ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ڈوگرہ راجہ نے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کو ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کی کافی کوششیں کی لیکن اس کی کوششیں کامیاب نہیں ھوئیں اور انگریز نے 1946 میں ھی کشمیر کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو نافذ کردیا۔ اس لئے پنجابی زبان کا لہجہ ڈوگری نہ ھی تعلیمی اور سرکاری زبان بن سکا اور نہ ھی پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کا سرمایہء ادب محفوظ ھو سکا۔ اس لیے پنجابی زبان کا لہجہ ڈوگری بول چال کی زبان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر پایا اور علاقائی زبان رھا۔

کشمیر کے لوگوں نے صدیوں سے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری کو اپنی تمنّاؤں اور خوابوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا ھوا تھا۔۔ اس وادی کے لوگ جنہیں قدرت نے شاعرانہ ذوق بھی بخشا ھے ۔ قدرت کی فیاضیوں کی دِل کھول کر داد دیتے ھیں۔ چنانچہ کشمیر کے شاعروں نے اپنے وطن کی رعنائیوں اور حب الوطنی کے گیت جس کثرت سے گائے ھیں شاید ھی دنیا کی کوئی اور زبان اس سلسلے میں اس کا مقابلہ کرسکے۔

1857 ء کی جنگ آزادی بھی جموں و کشمیرمیں اردو کی ترویج کا اھم سبب بن گئی۔ انگریزوں نے تحریک آزادی کو ناکام کرنے کے لیے ”گلاب سنگھ ” سے فوجی امداد طلب کی۔ ”گلاب سنگھ” خود اگرچہ 1857ء میں حکومت کے کاموں سے دستبردار ھوچکا تھا۔ پھر بھی اس نے انگریزوں کی مدد کے لیے ڈوگرہ فوج کو دھلی کے لیے روانہ کیا۔ جب یہ جنگ ختم ھوئی تو یہ ڈوگرہ فوج عرصہ تک دھلی میں رکی رھی۔ جہاں انہیں مزید تربیت دی گئی۔ اس دوران ڈوگرہ فوجی ایسے لوگوں سے ملتے رھے۔ جن کی زبان اردو تھی۔ اس طرح ڈوگرہ فوجی ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے لگے اور جب یہ فوجی ریاست میں واپس آئے تو اپنے ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی لائے۔ اس سے کشمیر میں اردو کے رائج ھونے میں بڑی مدد ملی۔

کشمیر میں 1862 ء میں مسیحی مبلغوں کی آمد کا سلسلہ شروع ھوا۔ ایک یورپین پادری ”ینگسن” کے ھاتھوں جموں کے ایک کلیسا کی بنیاد پڑی تھی۔ ان مشینریوں کی آمد بھی اردو کے فروغ کا باعث بنی۔ کیونکہ یہ مشینریاں عیسائی مذھب کی اشاعت کے لیے اردومیں تصویروں کے ساتھ رسالے اور کتابچے شائع کرکے عوام میں مفت تقسیم کر تی تھیں۔ یہ رسالے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتے تھے اور اس کے وسیلے سے ریاست میں اردو زبان کو پھلنے پھولنے کا خاصا موقع ملا۔

عرصۂ دراز سے وقتاً فوقتاً دوسری ریاستوں سے ڈرامہ کمپنیاں کشمیر میں آتی رھتی تھیں۔ ریاست کی عوام دکھائے جانے والے ڈراموں میں بڑی دلچسپی لیتی تھی اور ڈرامہ کمپنیاں کامیاب واپس جاتی تھیں۔ اس سے کشمیر دربار کو خیال ھوا کہ کیوں نہ ریاست میں ناٹک کمپنی قائم کی جائے۔ جس سے عوام کو تفریح بھی حاصل ھوجائے اور ملک کا روپیہ ملک ھی میں رھے۔ چنانچہ ”محکمۂ دھرم ارتھ” کی طرف سے جموں کے ایک ”روگھناتھ” مندر میں ایک ناٹک کمپنی کی تشکیل دی گئی۔ اس کمپنی نے شروع میں ”آغا حشرکاشمیری” کے مشہور ڈرامے ھیلمٹ ' خوبصورت بلا اور اللہ دین کا چراغ وغیرہ اسٹیج کیے۔ جس کے اداکار کچھ تو ھندوستان کی مشہور ڈرامہ کمپنیوں سے لائے جاتے تھے اور کچھ مقامی طور پر ریاست کے خوش ذوق گلوکار نوجوانوں کو تیار کیا جاتا تھا۔ جو لوگ ایک بار ڈرامہ دیکھ لیتے وہ بار بار دیکھنے کی کوشش کرتے اور اداکاروں کے لب و لہجہ میں مکالمے ادا کرتے تھے۔ بظاھر تو یہ کھیل تماشے تھے لیکن ان کے ذریعہ اردو کو عوام کی زبان پر چڑھنے کا موقع ملتا رھا اور غیر شعوری طور پر اردو کی اشاعت کا کام ھوتا رھا۔ اردو کی ھر دلعزیزی روز بروز ریاست میں بڑھتی رھی۔ بعد میں نئے ڈرامیٹک کلب بھی وجود میں آنے لگے۔

ریاست جموں و کشمیرمیں اردو کے فروغ اور ترقی کے سلسلے میں کئی اور عوامل بھی شامل رھے ھیں۔ جن میں محرم کی مجلسیں بھی شامل ھیں۔ ان مجلسوں میں لکھنؤ سے ذاکر بلوائے جاتے تھے اور ذاکروں سے ریاست کے لوگ لکھنوی لب و لہجہ میں مرثیے اور سلام سنتے تھے۔ ذاکروں کا انداز بیان سننے والوں کو متاثر کرتا تھا اور متعدد مرثیوں کے ان گنت مصرعے عوام کی زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔

ریاست میں رھنے والے وہ لوگ جو اردو سے بالکل نا آشنا تھے ان کو بھی شعر سننے کا شوق تھا۔ مناقب پڑھنے والے فقیر اکثر ریاست میں آتے جاتے تھے۔ یہ فقیر جس موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔ اس کی سند عموماً نظیر کے کلام سے لائی جاتی تھی۔ وہ لوگوں کو مناقب اور”نظیر” کی نظمیں سناتے تھے۔ نظمیں سننے سے ان کے بہت سے حصّے حافظوں میں محفوظ ھو جایا کرتے تھے۔ ریاست کے لوگ نظیرکا کلام سنتے وقت خوش ھوتے تھے اور زبانی یاد بھی کرنے لگے تھے۔ وہ اپنے کاموں سے فراغت پاکر ان نظموں کو دھراتے اور خوش ھوتے تھے۔ اس طرح نظیر نے اردو سے ناآشنا لوگوں میں مقبولیت حاصل کرکے جموں وکشمیرمیں اردو کی ترویج میں آسانیاں پیداکیں۔

کشمیریوں کے اردو سے مانوس ھونے کی ایک کڑی ھندوستانی سیاّحوں کی آمدورفت بھی رھی۔ جموں تو بہر حال پنجاب سے ملحق تھا اس لیے رابطہ آسانی سے ھونے لگا لیکن کشمیر کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ لیکن جب ”مری کو ھالہ” اور ” بانہال” کا روڈ تعمیر ھوا تو کشمیر پہنچنے میں آسانی پیدا ھوگئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ھر طبقے اور علاقے کے لوگ کشمیر پہنچنے لگے۔ سیّاحوں کی آمد سے کشمیرکی صنعت کوبھی بڑی ترقی حاصل ھوئی۔ جبکہ مقامی لوگوں اور سیّاحوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے رابطہ کا ذریعہ اردو زبان بننے لگی۔ اس لئے کشمیر میں اردو کو روز بروز فروغ حاصل ھونے لگا۔ حالانکہ وہ کاروباری زبان بولتے تھے جس میں نہ تذکیروتانیث کا کوئی لحاظ تھا اور نہ ھی جملوں کی ترتیب کا خیال رکھا جاتا۔ لیکن پھر بھی اردو نے فروغ پانا شروع کردیا۔

ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنے دربار کی شان بڑھانے کے لئے دھلی سے نقیب بلوائے جن کو ملازمتیں دی گئیں۔ یہ نقیب ڈوگرہ دربار میں مغلیہ دربار کے روایتی انداز میں مہاراجہ کی آمد کا اعلان کر تے تھے۔ اس عمل نے بھی جموں و کشمیر میں اردو کی ترویج کی۔

مہاراجہ رنبیرسنگھ نے (75- 1874 ء) ”چودھری شیر سنگھ ” کو 1864ء میں سیاسی و تجارتی تعلقات کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے بخارا بھیجا۔ شیرسنگھ نے واپس آکر 1865ء میں اردومیں 180 صفحات پر مشتمل سفر کے نتائج مرتب کرکے پیش کیے۔ جسے کشمیر میں اردو کی پہلی تحریر بھی کہا جاتا ھے۔ اس تحریر نے بھی جموں وکشمیرمیں اردو کی ترویج کی۔

گلاب سنگھ کے دورمیں تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ لیکن ”رنبیرسنگھ ” کے زمانے (75-1874 ء) میں مہاراجہ” رنبیرسنگھ” نے جموں میں ایک دارالترجمہ قائم کیا۔ اس ادارے سے سنسکرت اور فارسی کی کتابوں شائع ھوتی تھی اور بہت سے مسودے اردو میں ترجمہ ھوتے تھے۔ اردو کی کتابیں جو عربی میں یا دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ھوئی تھیں ان کو باضابطہ طور پر شائع کیا جاتا تھا۔ اس عہد کے کئی مسودات ملتے ھیں جن میں سے اکثر انگریزی ' فارسی اور عربی سے اردو میں ترجمہ ھوئے ھیں۔ ان مسودات کی تیاری میں غلام غوث خان ' پنڈت بخشی رام ' مولوی فضل الدین ' لالہ بسنت رائے وغیرہ کے نام قابل ذکر ھیں۔ اس کی وجہ سے جموں وکشمیرمیں اردو کی مزید ترویج ھونا شروع ھوئی۔

پنجاب پر 1849 ء میں قبضے کے بعد 1877 ء میں اردو کو سرکاری زبان دے دیا تھا۔ چنانچہ ھندوستان کے علاوہ پنجاب کے بھی بعض علمی گھرانے جب ریاست میں آکر آباد ھوئے اور ان کا حکومت کے کاموں میں عمل دخل بڑھا تو انہوں نے عوام کی تعلیم کی طرف بھی توجہ مبذول کی۔ اس طرح ریاست میں پاٹ شالا اور مکتب کھولے گئے جہاں پنجاب کے مکتبوں کے طرز پر اردو اور فارسی نصاب جاری کیا گیا۔ اس کے بعد ”پرتاب سنگھ” کے دورمیں پنجاب کی تقلید کرتے ھوئے کشمیرمیں بھی اردو زبان میں اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لانا شروع کیا اور استاد باہر سے منگوائے جانے لگے۔ اس لیے تعلیم کے عام ھونے کے ساتھ ھی اردو کی مقبولیت میں اضافہ ھوا۔

ریاست میں 1858 ء سے ”احمدی پریس” قائم تھا۔ جس میں فارسی ' سنسکرت اور ڈوگری زبان کی کتابیں اور دفتروں کے فارم طبع ھوتے تھے۔ اس کے بعد ”وکرم بلاس ” کے نام سے ایک سرکاری مطبع قائم ھوا۔ لیکن ریاست میں گورنمنٹ پریس کے علاوہ جموں اور سرینگر میں کئی پریس قائم ھونے سے اردو کی اشاعت عام ھونے لگی۔ جموں میں ”پبلک پرنٹنگ پریس” ”دیوان پریس” اونکار پریس” اور سرینگر میں ”مارتنڈ پریس” اور ” ھمدرد پریس” قائم ھوئے۔ جن میں درسی ' علمی و ادبی کتابیں بھی چھپنے لگیں۔ 1940ء میں ”مسٹر اے آر ساغر” اور پروفیسر اسحاق قریشی” نے ”جاوید پریس” قائم کیا۔ اس پریس میں اخبار بھی چھپتے تھے اور درسی کتابیں بھی شائع ھوتی تھی۔

1872ء میں مشہور صحافی و لیڈر ”ھر گوپال خستہ” اپنی مشہور کتاب ”گلدستئہ کشمیر” میں لکھتے ھیں کہ؛ یہ کتاب کشمیر میں اردو نثر کی پہلی کتاب ھے۔ اس عہد کے اھم ادیبوں میں اھم نام ”ھر گوپال خستہ” کا نام سر فہرست ھے۔ وہ کشمیری الاصل تھے اور ”تحفئہ کشمیر” کے نام سے اخبار بھی نکالتے تھے۔

کشمیر میں اردو کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں اخبارات نے بھی اھم کردار ادا کیا۔ اس سے آھستہ آھستہ اردو صحافت نے بھی زور پکڑا اور 1924ء سے ریاست میں باقائدہ اردو صحافت کا آغاز ھوا۔ ”ملک راج صراف ” نے ”رنبیر” کے نام سے با اثر اخبار شائع کیا۔ اس لحاظ سے ”ملک راج صراف” ریاست جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے باوا آدم ھیں۔ 1947ء تک جموں سے کئی روزنامچہ اور درجنوں ھفتہ وار اخبار شائع ھونے لگے تھے۔

1925ء کے بعد تو کشمیرکے نظام میں بڑی اصلاحیں ھوئیں ۔ اضلاع میں بھی ھائی اسکول کھولے گئے اور اردو زبان میں تعلیم کے عام ھونے سے اردو زبان میں تعلیم کی برکات سے عوام میں اردو زبان بولنے کے رحجان میں بھی اضافہ ھوا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ حکومت سے تقاضہ کرکے کالجوں میں اردو ادب کے فروغ کے لیے ادبی انجمنوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور متعدد کالجوں نے اردومیں رسالے جاری کیے گئے۔

(1) پرنس آف ویلزکالج سے اردو زبان میں رسالہ نکلتا تھا۔

(2) امر سنگھ کالج سرینگر سے ”لالہ رخ”کے نام سے اردو زبان میں رسالہ نکلتا تھا۔

(3) ایس’ پی’کالج” سرینگرکا ترجمان” ایک الگ اردو زبان میں رسالہ تھا۔

(4) دیہات سدھا کا محکمۂ ”دیہاتی دنیا” کے نام سے اردو زبان میں رسالہ شائع کرتا تھا۔

(5) محکمۂ تعلیم کی سرپرستی میں اردو زبان میں”تعلیم جدید” ایک معیاری رسالہ شائع ھوتا تھا۔

(6) ”شیرازہ ”جو اردو اور پنجابی زبان کے لہجہ ڈوگری دونوں زبانوں میں شائع ھوتا تھا۔

ظاہر ھے کہ اسکولوں اور کالجوں میں اردو کی تعلیم و تدریس کے عام ھونے سے اردو زبان میں اضافہ ھوا۔ بہت سے لوگ نظموں اور غزلوں کی صورت میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ چناچہ شعری محفلوں اور چھوٹے موٹے مشاعروں کا انعقاد بھی شروع ھوا۔ ”منشی محمد دین فوق” نے ریاست میں شعری محفلوں کا سلسلہ عام کرکے اردو کی مقبولیت کو زیادہ یقینی بنایا۔ کشمیر میں داخلی طور پر اردو کے فروغ اور ترویج کا ماحول متذکرہ عوامل کے سبب ھو ھی رھا تھا کہ تعلیم کی غرض سے کشمیری نوجوانوں کو ریاست سے باھر علی گڑھ ' دھلی ' پنجاب ' کانپور اور بعض دوسرے مراکز میں جا کرتعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب یہ طلباء تعلیم حاصل کرکے واپس کشمیر آتے تووہ نہایت عمدہ لب و لہجہ میں معیاری اردو بولتے اور اس طرح اردو کو مزید مقبول ھونے کا موقع ملتا۔

ان معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ وہ اردو زبان جوبرسہا برس سے پنجابی زبان کے لہجے ڈوگری اور پہاڑی کے علاوہ فارسی زبان کے غلبے کے سبب بہت زیادہ پنپ نہیں پائی تھی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں بڑی تیزی سے مقبول ھوئی اور کشمیر میں محض اردو زبان ھی نہیں بلکہ اردو ادب کو بھی اپنی بنیادیں مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ادھر تقریباً نصف صدی میں یہاں ان گنت شعراء ’ فکشن نگار اور انشاپرداز ادبی افق پر محض نمودار ھی نہیں ھوئے بلکہ پورے ادبی منظر نامے میں انہو ں نے اپنی حیثیت اور اھمیت تسلیم کرالی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں میر غلام رسول ناز ' شہ زور کاشمیری ' تنہا انصاری ' طالب کاشمیری اور میکش کاشمیری نے شہرت حاصل کی اور 1960ء کے بعد جدیدیت کے زیر اثر حامدی کاشمیری ' حکیم منظور ' رفیق راز ' محمد یاسین اور رخسانہ جبیں نے تخلیقیت کو فروغ دیا ۔ حامدی کاشمیری نے معاصر شاعری اور تنقید میں عالمی سطح پر اونچا مقام حاصل کر لیا۔ ان کی تنقیدی تصانیف میں نئی حسّیت اور عصری شاعری اپنے موضوع کے اعتبار سے اھم ھے۔ اس کے علاو ہ سرینگر سے بین الاقوامی سطح کا ”جہات ” کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا۔ نثر میں اکبر حیدری ' محمد زماں آزردہ ' نذیر احمد ملکاور ' مجید مضمر نے قابل قدر کتابیں شائع کیں۔ ان معروضات کے با وصف اس بات میں دو رائے نہیں کہ ریاست کشمیر میں اردو زبان کو مستقل کوششوں اور کاوشوں سے اب بھی ابھارا جا رھا ھے۔

No comments:

Post a Comment