Sunday 23 February 2020

پاکستانی پنجابی کو اب چومکھی جنگ لڑنا پڑے گی۔


پاکستان میں بات قوموں کی ھو یا زبانوں کی ' ذاتوں کی ھو یا نسلوں کی ' مذھبوں کی ھو یا فرقوں کی ' گیم سارا "پاور ڈومینیشن" کا ھے۔ پنجاب کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کروا کر اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ خود مسلمان اور پاکستانی کے بجائے مہاجر ' پٹھان ' بلوچ بن گئے۔ پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنا ' اپنا پیشہ بنا لیا۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کی عادت بن چکی ھے کہ؛ ایک تو ھندکو ' براھوئی اور سماٹ پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ دوسرا پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ؛ پاکستان کے سماجی اور معاشی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔

پنجابی ' پاکستان کو بناتے بھی رھے اور انڈیا سے بچاتے بھی رھے لیکن یہ اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ نہ صرف پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھے بلکہ جناح پور ' پختونستان ' آزاد بلوچستان کی سازشیں اور پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں دیتے رھے۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ بلیک میلروں نے "پنجابیوں کو ڈیوائیڈ اور خود کو یونائٹ" کر کے پنجاب اور پنجابیوں پر اپنی سماجی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی بالادستی رکھنے کا کھیل کھیلا۔ اب پنجابیوں کو "جیسے کو تیسا" والا کام کرنا پڑنا ھے۔ لوھے کو لوھا کاٹتا ھے۔ ھیرے کو ھیرا کاٹتا ھے۔ زھر کو زھر مارتا ھے۔ اس لیے اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کی چال کو ھی پنجابی بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کے لیے استعمال کرے گا۔

اب پنجابی بھی "ڈیوائیڈ اینڈ رول کا گیم " کھیلے گا۔ پنجابی اب اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کو ڈیوائیڈ کرے گا اور پنجابیوں کو یونائٹ کرے گا۔ پنجابیوں کو اب پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف بڑھتی ھوئی سازشوں اور شرارتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے "چو مکھی جنگ" لڑنا پڑے گی۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ چونکہ مسلمان ھیں اور سات دھائیوں تک پنجابی نے اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کو مسلمان ھی سمجھا۔ لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ نے مسلمان پنجابی کو مسلمان اور پاکستانی نہیں ' پنجابی کہہ کہہ کر گالیاں دیں۔ پنجاب کو علاقوں اور پنجابی کو لہجوں میں ڈیوائیڈ کرنے کی سازش کی۔ اس لیے پنجابی اب خود کو یونائٹ کریں گے اور وہ بھی پنجابی کی بنیاد پر۔ جب پنجابی کی بنیاد پر پنجابیوں کو یونائٹ کرنے کی بات ھوگی تو مسلمان پنجابی کے ساتھ ساتھ ' سکھ پنجابی ' کرسچن پنجابی ' ھندو پنجابی بھی ' پنجابی ھونے کی وجہ سے مسلمان پنجابی کے ساتھ ھی ھوگا۔

اگر پنجابی قوم پرستوں نے مسلمان پنجابی کے علاوہ سکھ پنجابی ' کرسچن پنجابی اور ھندو پنجابی کو بھی یونائٹ کر کے پاکستان میں شامل کر لیا تو کیا ھوگا؟ پنجابی قوم پرستوں نے سکھ پنجابی ' کرسچن پنجابی اور ھندو پنجابی کو بھی پاکستان میں شامل کر لیا تو کیا کشمیر نے بھی پاکستان کا حصہ نہیں بن جانا؟ پھر پاکستان کیا پنجابستان نہیں بن جائے گا ' جس میں 85 % پنجابی ھونگے؟ کیا اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ مسلمان خود کو سیکولر پنجابستان کی اقلیتی برادریاں تو نہیں بنوانے جا رھے؟

اس وقت پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی 60 % ھے۔ جبکہ 40% آبادی میں سے اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کے علاوہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی بھی ھیں۔ پنجابی قوم اپنی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کے لیے جدوجہد کرنے کے علاوہ پاکستان کی باقی 40% آبادی میں سے سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی۔

پنجابیوں نے پاکستان میں پیار و محبت ' امن و آشتی کا ماحول بنانا ھے۔ اس لیے پنجابی قوم پرست سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کے ساتھ بہترین سماجی و سیاسی مراسم رکھا کریں۔ انکے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا کریں۔ انہیں عزت و احترام دیا کریں۔ انکی مدد اور حوصلہ افزائی کیا کریں۔ ان کے ساتھ تعاون کیا کریں۔ جبکہ بلیک میلر اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ' پٹھان ' بلوچ کے ساتھ دور دور سے سلام دعا رکھا کریں۔

No comments:

Post a Comment