Monday 22 June 2020

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ کے پنجابی اور پٹھان ' مھاجر سے الگ ھوچکے ھیں۔

کراچی کے مہاجر 1972 میں ذالفقار علی بھٹو اور اس وقت سندھ میں قائم مہاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد کے درمیان ھونے والے معاھدہ کا اب تک ناجائز فائدھ اٹھا رھے ھیں. 1972 میں سندھ کے وزیر اعلی ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں لینگویج بل پیش کیا تھا۔ جسکے تحت سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو کے بجائے صرف سندھی کو قرار دینا تھا. لینگویج بل سندھ اسمبلی میں پیش ھوتے ھی سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے.

اس وقت کے حالات میں مہاجر ' پنجابی ' پٹھان کو غیر سندھی قرار دیا جاتا تھا۔ جسکی وجہ سے سندھ کے ایک مہاجر سیاستدان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں مہاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد بنا ھوا تھا اور سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں متحد تھے۔ مہاجر اردو زبان کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان رکھنا چاھتے تھے۔ سندھ کے پنجابی اور پٹھان ' مہاجروں کے اتحادی ھونے کی وجہ سے اور بعض دیگر وجوھات کی بنا پر مہاجروں کے مطالبے کی حمایت کر رھے تھے۔

سندھ میں اردو اور سندھی کی بنیاد پر لسانی فسادات کے بعد ذالفقار علی بھٹو کو ٹی وی پر آکر سندھ کے غیر سندھی مہاجروں ' پنجابیوں اور پٹھانوں سے معافی مانگنی پڑی اور صرف سندھی کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کا بل واپس لینے کے ساتھ ساتھ یہ معاھدہ بھی کرنا پڑا کہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی اور گورنر غیر سندھی ھوا کرے گا۔ اس لیے اس وقت کے سندھ کے سندھی گورنر رسول بخش تالپور کو ھٹاکر مہاجر بیگم رعنا لیاقت علی خاں کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔

ایم کیو ایم کے قیام تک سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان ' غیر سندھی کی بنیاد پر ایک تھے لیکن یہ اور بات ھے کہ سندھ کا گورنر غیر سندھی کے معاھدے کے تحت صرف مہاجر ھی بنتا رھا اور شہری سندھ کے 40٪ سرکاری نوکریوں کے کوٹہ میں سے زیادہ تر نوکریاں مھاجروں کو ھی ملتی رھیں۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ کے پنجابی اور پٹھان چونکہ اب مہاجر سے الگ ھوچکے ھیں۔ اس لیے سندھ میں غیر سندھی کے نام پر مہاجر گورنر کی تعیناتی کا رواج اب ختم ھونا چاھیے اور شہری سندھ کی 40٪ سرکاری نوکریوں کے کوٹہ میں پنجابیوں اور پٹھانوں کا بھی حصہ ھونا چاھیے۔ خاص طور پر کراچی کی مقامی حکومت کی نوکریوں میں۔ جہاں مھاجروں کے سیاسی غلبہ کی وجہ سے صرف مھاجروں کو سرکاری نوکریاں دی جاتی ھیں اور کراچی میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو نظرانداز کیا جاتا ھے۔

No comments:

Post a Comment