آصف
زرداری پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو فوج کی " اینٹ سے اینٹ " بجا
دینے کی دھمکی دینے کے بعد پاکستان سے بھاگ گیا تھا۔
اب
آصف زرداری نے پاکستان سے باھر بیٹھ کر ھی فون کرکے پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل
قمر باجوہ کو پاک فوج کا سربراہ بننے پر مبارک باد دی ھے۔
پاک
فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو پاک فوج کا سربراہ بننے پر مبارک باد دینے سے
عیان علی ' عذیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کے ویڈیو بیانات میں کارڈ گیم کے کھلاڑی آصف
زرداری کے پاکستان دشمن رابطوں ' واسطوں اور حرکتوں کو اب نظر انداز کردیا جائے
گا؟
آصف
زرداری کے پاکستان دشمن رابطوں ' واسطوں اور حرکتوں کو نظر انداز نہ کیا گیا تو
کیا کارڈ گیم کا کھلاڑی آصف زرداری پاک فوج کے نئے سپہ سالار قمر باجوہ کو بھی کہے گا کہ؛ "آپنے تین سال رھنا ھے اور ھم نے ھمیشہ رھنا ھے" اور "اینٹ سے
اینٹ" بجانے کی دھمکی دے گا؟
سوال
یہ ھے کہ؛
کیا آصف زرداری کی دھمکی پاک فوج کے لیے کوئی اھمیت رکھتی ھے؟
اھم
سوال یہ ھے کہ؛
جن
وجوھات کی وجہ سے آصف زرداری نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو فوج کی "
اینٹ سے اینٹ " بجا دینے کی دھمکی دی تھی ' کیا وہ وجوھات ختم ھوچکی ھیں؟
سب
سے اھم سوال یہ ھے کہ؛
عیان
علی ' عذیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کے ویڈیو بیانات میں کہیں کارڈ گیم کے کھلاڑی آصف
زرداری کے پاکستان دشمن رابطوں ' واسطوں اور حرکتوں کے بارے تو اظہار نہیں ھے؟
جنرل راحیل شریف کے جانشین کے طور پر
جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان کی آرمی کا سربراہ بنانا بہت بہترین اور
دانشورانہ فیصلہ ھے۔ پاکستان کی فوج اب مزید منظم اور متحرک ھوگی جبکہ پاکستان
مزید محفوظ اور طاقتور ھوگا۔ انشا اللہ
مھاجر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں
پاکستان میں مارشلا نافذ کرکے پاکستان کو مھاجرستان بنانے کے لیے اقربا پروری اور
مفاد پرستی کو فروغ دے کر پاکستان کی فوج کے ادارے کو برباد اور پاکستان کے سیاسی
اداروں کو تباہ کردیا تھا۔
پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان
کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو ٹھیک کرنا شروع کیا اور
پنجابی جنرل راحیل شریف نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو
بہترین بنا دیا۔ اب پنجابی جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے
کے بعد فوج کے ادارے کو مزید بہترین بنا دینا ھے۔
اس لیے سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اب
اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو منظم اور متحرک ادارے بنانے پر دھیان دیں۔ جبکہ
پاکستان کی فوج کے ادارے کی آشیر باد اور اشارے کی بنیاد پر سیاست کرنے کے عادی
حضرات اپنے گھر بار اور کاروبار پر دھیان دیں۔
پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم اور
مظبوط فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی
ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر
اور معیاری بنانے کی ضرورت ھے۔
گو کہ آمریت کے
دور میں "موج مستی" کرنے والوں کو ابھی تک پاکستان میں "جمہوری
سیاسی نظام" برداشت نہیں ھو پا رھا۔ لیکن اس
کے باوجود "منتخب سیاسی اور جمہوری حکومت" کو خطرہ پاکستان کی "فوج
کے ادارے" سے نہیں ھے بلکہ "سیاسی جماعتوں" کے منظم ادارے نہ بننے
اور "سول سروس" کے اداروں کی کارکردگی کے معیاری نہ ھونے سے ھے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اگر منظم
اور مظبوط سیاسی ادارے بننے میں ناکام رھیں اور پاکستان کی حکومت اگر پاکستان کی
سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے میں ناکام رھی تو کہیں ایسا
نہ ھو کہ با امر مجبوری پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے
جبکہ پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کے فرائض
بھی کہیں پاکستان کی فوج کے ادارے کو انجام نہ دینے پڑ جائیں۔
جنرل راحیل شریف کے پاکستان کی فوج
کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو دنیا بھر میں ایک بہترین ادارہ
بنا کر با عزت اور پر وقار طریقے سے ریٹائر ھونے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے
پاکستان کی فوج کے ادارے کا نیا سربراہ بننے سے یہ ثابت ھو رھا ھے کہ پاکستان کی
فوج اب ایک منظم ' مظبوط اور مستحکم ادارہ بن چکی ھے۔
منظم ' مظبوط اور مستحکم اداروں میں قحط الرجالی نہ ھونے کی وجہ سے قیادت کا فقدان نہیں ھوتا۔ اس لیے منظم ' مظبوط اور مستحکم ادرے کے اراکین شخصیات کے محتاج نہیں ھوتے۔ لہذا ادارے کے اراکین شخصیات کی پسند نہ پسند کے بجائے ادارے کے قائدے ' قانوں اور ضابطے کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتے ھیں۔
پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم ' مظبوط اور مستحکم فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے اداروں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم حکومتی ادارے بنانے کی ضرورت ھے۔
اس لیے سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی
سول سورسز کے اداروں میں قحط الرجالی کا خاتمہ کرکے قیادت کے فقدان کو ختم کرنا
ضروری ھے۔ تاکہ نہ تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں شخصیات کی محتاج رھیں اور نہ
پاکستان کی سول سورسز کے ادارے شخصیات کے محتاج رھیں۔
No comments:
Post a Comment