گوجر
ایک قبیلہ کا نام ہے جو
برصغیر میں دور دور تک آباد ہے۔ جو چھٹی صدی عیسوی میں برصغیر میں داخل ہوئے تھے۔
ان کی جسمانی خصوصیات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ خالص ہند آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
گوجروں
کا تعلق ہنوں سے تھا یہ ان کے بعد برصغیر میں آئے تھے اور انہوں نے راجپوتانہ کا
بڑا حصہ فتح کرلیا اور کئی صدیوں تک برصغیر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
ڈی آر بھنڈارکر نے ثابت کیا ہے کہ گوجارے شمالی ہند میں 550 عیسوی کے قریب سفید
ہنوں کے ساتھ یا ان کے بعد داخل ہوئے تھے۔ ان کا ذکر سب سے پہلے پانا کی کتاب ’ہرش
چرت‘ میں آیا ہے، جو انہیں ہنوں کی طرح ہرش کے باپ کا دشمن قرار دیا ہے۔
محمد
عبدالمک نے ’شاہان گوجر‘ میں لکھا ہے کہ دوسرے ممالک میں اس قوم کو خزر، جزر، جندر
اور گنور بھی کہا گیا ہے۔ برصغیر میں یہ پہلے گرجر کی صورت پھر گوجر ہوگیا۔ یہ لوگ
گرجساتان سے آئے تھے۔ بحیرہ خزر کا نام شاید خزر پڑھ گیا کہ اس کے ارد گرد خزر
یعنی گوجر آباد تھے۔ جو سھتین قبایل کی نسل سے ہیں۔ شاہان گوجر میں اگنی کل کی
چاروں قبیلوں چوہان، چالوکیہ، پڑھیار اور پنوار کا ذکر گوجروں کے
ضمن میں کیا ہے۔
حسن
علی چوہان نے ’تاریخ گوجر‘ میں لکھا ہے کہ رامائین میں گوجر کے معنی غازی کے آئے
ہیں اور یہ کشتری ہیں جو بعد میں گوجر کہلانے لگے۔ اس میں سورج بنسی، چندر بنسی،
چوہان، چالوکیہ، پڑھیار، پنوار اور راٹھوروں کو بھی گوجر کہا گیا ہے۔ مگر ان اقوام
نے کبھی گوجر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی گوجروں نے کبھی ان اقوام سے اپنا
نسلی تعلق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جب کہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ گوجر قوم کے لوگ
نوکری نہیں کرتے ہیں۔ ان کی گزر اوقات دودھ دہی
پر ہے۔ جلال الدین اکبر نے ایک قلعہ بنا کر اس میں گوجروں کو آباد کیا تھا جس کا
نام گجرات ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوجر اور گجر کی اصل ایک ہی ہے۔
گوجروں
کی آبادی کا دور دور تک منتشر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی فرمانروائی کا
دائرہ کس قدر وسیع تھا۔ گوجر بیشتر گلہ بانوں کی ایک قوم تھی جو جنگ و پیکار کی
دلدادہ تھی اور آج کل بھی گوجروں میں یہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہ مستقل مزاج
زراعت کاروں کی حثیت سے شہرت کے مالک ہیں۔ تاہم انہوں نے عمومی حثیت سے اقامت کی
زندگی اختیار کرلی ہے۔ ہند کے انتہاہی شمالی مغربی حصہ خاص کر کانگرہ اور سنجھال
کے پہاڑوں کے بیرونی کناروں تا حال گوجر خانہ بدوش چرواہوں اور گلہ بانوں کی زندگی
بسر کر رہے ہیں۔ ان کے نام پر شمالی مغربی برصغیر میں بہت سی بستیاں '
قبضے اور شہر آباد ہوئے جو اب تک موجود ہیں۔
گوجروں
نے اپنی ریاست کوہ آبو کے قریب بھٹمل میں قائم کی تھی۔ اس خاندان کی ایک اور شاخ
بروچ نے ایک اور ریاست قائم کی تھی جو ان کے نام سے بروچ کہلائی۔ ایک اور شاخ
اونٹی کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ اس خاندان نے عربوں کو جو گوجروں کے علاقہ تاراج
کررہے تھے روکا۔ ان دونوں خاندانوں میں بالادستی کے لئے جنگ ہوئی۔ جس میں اونٹنی
خاندان کو کامیابی ہوئی اور ان کو اپنے اپنے طاقتور پڑوسییوں راشٹر کوٹوں اور
پالوں سے جنگیں کرنی پڑیں۔ اونٹی راجہ ناگاہ بھٹ دوم (800ء تا 825ء) نے مونگیر
کے مقام پر دھرم پال کو شکست دی۔ اس نے کاٹھیاوار ' مالوہ اور
راجپوتانہ میں کامیاب لڑائیاں لڑیں۔ اس کا بیٹا بھوج ایک کامیاب اور قابل راجہ تھا۔
شروع میں اس نے پالوں اور راشٹر کوٹوں سے شکست کھائی۔ مگر بالاآخر اس نے اپنے
دشمنوں کو ہرا کر اپنے دشمنوں کو ہرا کر کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کرلیے۔
بروچ
کے دارلحکومت قنوج پر گوجروں کی شاخ پرتی ہاروں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ مگر راجہ
یشودومن سے قبل کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ یشودرمن کشمیر کے راجہ للیتا کے ہاتھوں
شکست کھا کر مارا گیا۔
نویں
صدی کے شروع میں بنگال کے راجہ دھرم پال نے قنوج کے راجہ کو تخت پر سے اتار کر
اپنی پسند کے آدمی کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس کو تقریباً 816ء میں ناگابھٹ دوم نے
نکال باہر کیا۔ اس کے بیٹے بھوج نے قنوج کو اپنا پایا تخت بنایا۔ اس ایک طویل عرصہ
(840ء تا 890ء) تک ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔ اس کا بیٹا مہندر پال (890ء تا
908ء) اپنے باپ کی وسیع مملکت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ مگر اس کے بعد
اس ریاست کو ذوال آگیا اور اس کا بیٹا مہی پال اندر سوم کے ہاتھوں جو دکن کے
راشترکوٹیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا شکست کھا گیا اور درلحکومت پر بھی اندر سوم
کا قبضہ ہوگیا۔ مہی پال نے اگرچہ قنوج پر دوبارہ قبضہ کرلیا لیکن وہ ریاست کے
شیرازے کو بکھرنے سے نہیں بچا سکا۔ پڑھیاروں کی ایک ریاست رجپوتانہ میں مندوری یا
مندر کے مقام پر تھی، جس کو راٹھوروں نے چھین لی تھی۔ عبدالمک نے گوجروں کا خزر
قوم کی باقیات ہونے کا دعویٰ محض اس وجہ سے کیا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصہ یعنی
شمالی پنجاب سرحد اور کشمیر کے گوجروں کا کہنا ہے کہ وہ ترکی النسل ہیں۔
خزر
جو ایک ترکی قوم تھی، جس نے نوشیروان عادل سے کچھ عرصہ پہلے عروج حاصل کر لیا تھا
اور غالباَ یہی ترک تھے۔ جن کے خلاف دربند کی سدیں
تعمیر ہوئیں۔ خزر نے ترکی خانہ بدوش سلطنت کی روایات کو قائم رکھا۔ قباد کی پہلی
تخت نشینی کے وقت خزر قبیلے نے ایران پر یورشیں شروع
کردیں۔ قباد نے خزر حملہ آورں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دے کر ملک سے باہر
نکالا۔
بحیرہ
خزر کے مشرقی علاقوں میں ساسانیوں نے اپنے ترک ہمسایوں کے خلاف مدافعتی قلعے تعمیر
کئے۔ صوبہ جرجان کی حفاظت کے لئے آجری سد بنائی گئی۔ لیکن یہ ترکوں کے فاتحانہ
حملوں کی روک تھام نہ کرسکیں۔ جرجان اور طبرستان کے درمیانی سرحد پر ایک اور اس
لئے دیوار تعمیر کی گئی تھی کہ صوبہ جرجان ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ نوشیروان نے533ء
میں قیصر روم سے ایک معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدہ کے تحت رومی حکومت نے ایک بڑی رقم
دینے کا وعدہ کیا۔ جس کے بدلے نوشیرواں نے دربند اور کوہ کاف کے
دوسرے قلعوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ نوشیروان عادل (531 تا 579) ساسانی حکمران
نے مغربی ترکوں سے جن کا حکمران ایل خان تھا دوستانہ تعلقات قائم کئے اور ان کی
مدد سے افغانستان میں ہنوں کو شکست دی اور اس کے بعد خزر قبائل پر فوج کشی کی اور
ان کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا۔ خزر قوم تاریخ کے صفحات سے غائب ہوگئی۔ اس سے بھی
ترکوں کی طاقت میں خاطر اضافہ ہوا اور افغانستان میں ہنوں کے خالی کردہ علاقوں پر
ترک براجمان ہوگئے۔ یہی وجہ ہے تھی جس کے سبب ترکوں اور نوشیروان میں اختلاف پیدا
ہوگیا۔
بہر
حال گوجروں کے ترکی النسل ہونے میں تو ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس پر
اختلاف ہے کہ گوجر خزر النسل ہیں۔ کیوں کہ ترکوں کی مغربی سلطنت جس کی علمبرداری
افغانستان کے علاقوں پر بھی تھی وہ خزروں کی دشمن تھی اس لئے خزر قوم کا برصغیر کی
طرف آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ جو ترک قبائل ساسانی سرحدوں کے قریبی
ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا اور اسی نسبت سے ترک قبائل کو غز بھی کہا
جاتا تھا۔ یہ قبیلہ غز کے علاوہ غزر بھی پکارا جاتا تھا اور یہ کلمہ ترکوں کے
ناموں میں بھی آیا ہے۔ مثلاً غزر الدین مشہورخلجی التتمش کے دور میں گزرا ہے۔ غرز
جو ترک تھے ہنوں کی شکست کے بعدبرصغیر میں داخل ہوئے۔ یہ نہ صرف بہترین لڑاکے '
خانہ بدوش اور گلہ بان تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ غرز ہند آریائی لہجہ میں گجر
ہوگیا۔ کیوں کہ ہند آریا میں ’غ‘ ’گ‘ سے اور ’ز‘ ’ج‘ سے بدل جاتا ہے اور گجر کا
معرب گوجر ہے۔
پاکستان
میں گوجر شخصیات
چوہدری
رحمت علی
فضل
الہی چوہدری
میجر
طفیل محمد شہید
شعیب
اختر
حافظ
محمد سعید
قمر
زمان کائرہ
میجر
جنرل بلال اکبر
علامہ
لیاقت حسین
نوید
عالم
مفتی
منیب الرحمان
سجاد
گجر کبڈی پلیئر
بابر
وسیم گجر کبڈی پل
No comments:
Post a Comment