Sunday, 1 October 2017

سلطان العارفین سخی سلطان باھو

سلطان العارفین سخی سلطان باھو یکم جمادی الثانی 1039ھ (17جنوری1630ء) بروز جمعرات بوقت فجر شاھجہان کے عہدِ حکومت میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ پنجاب میں پیدا ھوئے۔ آپ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ھیں۔سخی سلطان باھو کے والد بازید محمد پیشہ ور سپاھی تھے اور شاھجہان کے لشکر میں ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ ایک صالح ' شریعت کے پابند ' حافظِ قرآن ' فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باھو کی والدہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں اور پاکیزگی اور پارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ کہا جاتا ھے کہ آپ مادر زاد ولی تھے۔ بچپن ھی میں آپ کے روحانی کمالات کے ظہور سے آئندہ زندگی کی تصویر نمایاں تھی۔ آپ اپنی والدہ ماجدہ قدس سرھا کا دودھ رمضان المبارک میں سحری سے لے کر شام تک نہیں پیتے تھے۔ یعنی اپنے والدین کی طرح صائم رھتے تھے۔ اوائل عمری میں ھی آپ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رھتے۔ پنجابی زبان کے صوفی شاعر سلطان العارفین سخی سلطان باھو کو جس چیز نے شہرت دوام بخشی وہ (ابیات باھو) ھے۔ اس کے ھر مصرعے کے بعد (ھو) آتا ھے۔ جو ذات باری تعالٰی کے لیے مخصوص ھے۔ یہ خاص رنگ سخن باھو کے ساتھ ھی مخصوص ھے۔ آپ کی تمام شاعری تصوف سے مملو ھے۔

سخی سلطان باھو پیدائشی عارف باللہ تھے۔ آپ اپنی کتب میں بیان فرماتے ھیں کہ میں تیس سال تک مرشد کی تلاش میں رھا مگر مجھے اپنے پائے کا مرشد نہ مل سکا۔ یہ اس لیے کہ آپ فقر کے اس اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے جہاں دوسروں کی رسائی بہت مشکل تھی۔ چنانچہ آپ اپنا ایک کشف اپنی کتب میں بیان فرماتے ھیں کہ ایک دن آپ دیدارِ الٰہی میں مستغرق شورکوٹ کے نواح میں گھوم رھے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور ' صاحبِ حشمت سوار نمودار ھوئے جنہوں نے اپنائیت سے آپ کو اپنے قریب کیا اور آگاہ کیا کہ میں علیؓ ابنِ طالبؓ ھوں اور پھر فرمایا کہ آج تم رسول اللہﷺ کے دربار میں طلب کیے گئے ھو۔ پھر ایک لمحے میں آپ نے خود کو آقا پاک ﷺ کی بارگاہ میں پایا۔ اس وقت اس بارگاہ میں ابوبکر صدیقؓ  ' عمر فاروقؓ  ' عثمان غنیؓ  اور تمام اہلِ بیت حاضر تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی پہلے ابوبکر صدیقؓ نے آپ پر توجہ فرمائی اور مجلس سے رخصت ھوئے۔ بعد ازاں عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ بھی توجہ فرمانے کے بعد مجلس سے رخصت ھو گئے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا میرے ھاتھ پکڑو اور مجھے دونوں ھاتھوں سے بیعت فرمایا۔ بعد ازاں آقائے دو جہاں ﷺ نے آپ کو غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد فرمایا۔ آپ فرماتے ھیں جب فقر کے شاھسوار نے مجھ پر کرم کی نگاہ ڈالی تو ازل سے ابد تک کا تمام راستہ میں نے طے کر لیا۔ پھر عبدالقادر جیلانی کے حکم پر سخی سلطان باھو نے دھلی میں عبدالرحمن جیلانی دھلوی کے ھاتھ پر ظاھری بیعت کی اور ایک ھی ملاقات میں فقر کی وراثت کی صورت میں اپنا ازلی نصیبا ان سے حاصل کر لیا۔

سخی سلطان باھوکا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ھے۔ سلسلہ قادری کا آغاز عبدالقادر جیلانی سے ھوا اور اس کی دو شاخیں سروری قادری اور زاھدی قادری ھیں۔ سخی سلطان باھو کا سلسلہ سروری قادری ھے۔ آپ فرماتے ھیں: قادری طریقہ بھی دو قسم کا ھے؛ ایک سروری قادری اور دوسرا زاھدی قادری۔ سروری قادری مرشد صاحبِ اسم اللہ ذات ھوتا ھے اس لیے وہ جس طالبِ اللہ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی تعلیم و تلقین سے نوازتا ھے تو اسے پہلے ھی روز اپنا ھم مرتبہ بنا دیتا ھے جس سے طالبِ اللہ اتنا لایحتاج و بے نیاز متوکل الی اللہ ھو جاتا ھے کہ اس کی نظر میں مٹی و سونا برابر ھو جاتا ھے۔ زاھدی قادری طریقے کا طالب بارہ سال تک ایسی ریاضت کرتا ھے کہ اس کے پیٹ میں طعام تک نہیں جاتا۔ بارہ سال کی ریاضت کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی اس کی دستگیری فرماتے ھیں اور اسے سالک مجذوب یا مجذوب سالک بنا دیتے ھیں۔ اس کے مقابلے میں سروری قادری کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ھے۔

سخی سلطان باھو سروری قادری مرشد کا مرتبہ یوں بیان فرماتے ھیں؛ سروری قادری کی ابتداء کیا ھے؟ قادری کامل (سروری قادری) نظر سے یا تصورِ اسمِ اللہ ذات سے یا ضربِ کلمہ طیب سے یا باطنی توجہ سے طالبِ اللہ کو معرفتِ الٰہی کے نور میں غرق کر کے مجلسِ محمدیﷺ کی حضوری میں پہنچا دیتا ھے کہ طریقہ قادری میں یہ پہلے ھی روز کا سبق ھے۔ جو مرشد اس سبق کو نہیں جانتا اور طالبوں کو مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری میں نہیں پہنچاتا وہ قادری کامل ھرگز نہیں۔ سلطان العارفین سخی سلطان باھو اسی اعلیٰ ترین پائے کے مرشد کامل اکمل ھیں۔

سخی سلطان باھو کا فقر میں مقام و مرتبہ ھر کسی کے وھم و گمان سے بھی بالا تر ھے۔آپ سلطان الفقر پنجم کے مرتبہ پر فائز ھیں۔ آپ کو وہ خاص روحانی قوت حاصل ھے کہ آپ قبر میں بھی زندوں کی طرح تصرف فرماتے ھیں۔ آپ فرماتے ھیں جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سربلندی حاصل ھوئی ھے اور حضور فائض النور نبی اکرم ﷺسے تمام خلقت ' کیا مسلم ' کیا کافر ' کیا بانصیب ' کیا بے نصیب ' کیا زندہ ' کیا مردہ ' سب کو ھدایت کا حکم ملا ھے۔ آپ ﷺنے اپنی زبانِ گوھر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ھے۔

سخی سلطان باھو نے ھر لمحہ استغراقِ حق میں مستغرق رھنے کی وجہ سے ظاھری علم حاصل نہیں کیا لیکن پھر بھی آپ نے طالبانِ مولیٰ کی رھنمائی کے لیے ایک سو چالیس کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ کی تمام کتب علمِ لدّنی کا شاھکار ھیں۔ ان کتب کا سب سے بڑا معجزہ یہ ھے کہ انہیں ادب اور اعتقاد سے پڑھنے والے کی مرشدِ کامل اکمل تک راھنمائی ھو جاتی ھے۔ اپنی تمام کتب میں آپ نے معرفتِ الٰہی کی منازل طے کرنے کے لیے راہِ فقر اختیار کرنے اور مرشدِ کامل کی زیرِ نگرانی ذکر و تصور اسمِ ذات کی تلقین کی ھے۔ آپ ذکر و تصورِ اسمِ ذات کو قلب (باطن) کی کلید فرماتے ھیں جس کے ذریعے تزکیہ نفس ' تسویہ قلب اور تجلیۂ روح کے بعد طالبِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری کے اعلیٰ ترین مقامات عطا ھوتے ھیں۔

سخی سلطان باھو فرماتے ھیں کہ میں تیس سال ایسے طالبِ حق کی تلاش میں رھا جسے میں وھاں تک پہنچا سکتا جہاں میں ھوں لیکن مجھے ایسا طالبِ حق نہ مل سکا۔ چنانچہ آپ امانتِ فقر کسی کے بھی حوالے کیے بغیر وصال فرما گئے۔ آپ کا وصال یکم جمادی الثانی 1102ھ (بمطابق یکم مارچ1691ء) بروز جمعرات بوقت عصر ھوا۔ سلطان العارفین سخی سلطان باھو کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ پاکستان میں ھے۔ آپ کا عرس ھر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ھے۔

No comments:

Post a Comment