ھر انسان کا کوئی نہ
کوئی مذھب ھوتا ھے اس لیے مذھب کے لحاظ سے مسلمان امت ھیں۔ جب امتِ مسلمہ سے
متعلق معاملات کی بات ھوتی ھے تو چاھے عربی ھو یا عجمی ، بلا رنگ ، نسل ، زبان اور
علاقے کے ساری دنیا کے مسلمان امتِ محمدی ﷺ میں ھی شمار ھوتے ھیں۔
لیکن زبان اور دھرتی
کا چونکہ کوئی مذھب نہیں ھوتا اس لیے عربی زبان مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور
یہودی بھی بولتے ھیں اور عرب ممالک میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور یہودی بھی
رھتے ھیں۔ اس لیے جب عرب قوم کی بات ھوتی ھے تو اس میں صرف مسلمان نہیں بلکہ
عیسائی اور یہودی بھی شامل ھوتے ھیں۔
پاکستان کے مسلمان
مذھب کے لحاظ سے امتِ مسلمہ کا حصہ ھیں لیکن زبان اور زمین کے لحاظ سے پاکستان
پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ قوموں کا ملک ھے۔
ایک ھی زمین ' زبان
' تہذیب ' ثقافت اور تاریخی پس منظر کے باعث مسلمان سندھیوں کے علاوھ ھندو
سندھی بھی ' سندھی قوم کا ھی حصہ ھیں اور مسلمان پنجابیوں کے علاوھ ' سکھ پنجابی '
ھندو پنجابی اور عیسائی پنجابی بھی پنجابی قوم کا ھی حصہ ھیں۔
قوم کی حقیقت کے
متعلق قرآنِ پاک میں الله تعالی ارشاد فرماتے ھیں کہ؛
لوگو! ھم نے تمہیں
ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک
دوسرے کو شناخت کرو۔ اور الله کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ھے جو زیادہ
پرھیزگار ہے۔ (13:49)۔
قوم کی زبان کی
اھمیت کے متعلق قرآنِ پاک میں الله تعالی ارشاد فرماتے ھیں کہ؛
ھم نے ھر رسول کو اس
کی قوم کی زبان میں پیغام دے کر بھیجا تاکہ انہیں (احکام الله) کھول کھول کر بتا
دے۔ (14:4)۔
امت کے متعلق
قرآنِ پاک میں الله تعالی ارشاد فرماتے ھیں کہ؛
ھر زمانے کے لیے ایک
کتاب ھوتی ھے (38:13) اور ھر اُمت کے لیے ایک رسول ھوتا ھے۔ (47:10( اور ھم نے ھر
اُمت میں رسول بھیجا (36-16) اسی طرح (اے محمدﷺ) ھم نے تجھے اس امت میں جس سے پہلے
بہت سی امتیں گزر چکی ھیں بھیجا ھے تاکہ تم ان کو وہ (کتاب) جو ھم نے تمہاری طرف
بھیجی ھے پڑھ کر سنا دو۔ (30-13)۔
(اے محمدﷺ) ھم نے تجھے تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ھے (107:21)
ھم نے تم سے پہلے (بہت سے) رسول بھیجے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات
تم سے بیان کر دیئے ھیں اور کچھ ایسے ھیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔ (78:40)
کوئی امت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ھے نہ پیچھے رہ سکتی ھے (43-23)۔
محمدﷺ تمہارے
مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ھیں بلکہ الله کے رسول اور نبیوں )کے سلسلے( کو ختم
کردینے والے ھیں (40-33) اور ھم نے پہلے لوگوں میں بھی بہت سے نبی بھیجے تھے۔ (6-43)
اور اسی طرح ھم نے تجھے امتِ معتدل بنایا ھے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (آخرالزماں)
تم پر گواہ بنیں۔ (143-2)۔
پاکستان کی زمین
پر گذشتہ 68 سال سے پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ قوموں کی زبان کو نظر انداز
کرکے ' اردو زبان کو پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ قوموں پر مسلط کرکے وادیِ
مہران کی تہذیب و ثقافت کی حامل پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ قوموں کو
گنگا ' جمنا تہذیب و ثقافت اختیار کرنے پر مجبور کیا جارھا ھے حالانکہ بنگالی قوم
جو آبادی کے لحاظ سے پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ قوموں کی مجموعی آبادی سے
بھی زیادھ تعداد میں تھی ' اردو زبان اور گنگا ' جمنا تہذیب و ثقافت اختیار کرنے
سے انکار کرکے 1971 میں ھی پاکستان سے الگ ھو کر اپنی زمین پر اپنی زبان ' تہذیب
' ثقافت کو بحال کرکے ' اردو زبان کی بالادستی سے نجات حاصل کرچکی ھے اور پنجابی '
سندھی ' پٹھان اور بلوچ قومیں مستقل مطالبات کررھی ھیں۔
انگریزی کے ساتھ
ساتھ پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان پنجابی ' سندھ کی سندھی' پختونخواہ کی پشتو
اور بلوچستان کی بلوچی ھونی چاھیئے. اصل حقیقت یہ ھے کہ اردو کے ساتھ اردو اسپیکنگ
ھندوستانی پناھگیروں کے علاوھ کسی کو دلچسپی نہیں. پاکستان کے دیہی علاقوں میں
رھنے والے پنجابی' سندھی' پٹھان اور بلوچ تو ویسے ھی اردو نہیں بولتے لیکن پاکستان
کے بڑے بڑے شہروں میں رھنے والے پنجابی' سندھی' پٹھان اور بلوچ بھی خوشی سے نہیں
بلکہ اردو کے دفتری اور تعلیمی زبان ھونے کی وجہ سے مجبورا اردو بولتے ھیں۔
امت اور قوم چونکہ
دو الگ الگ حقیقتیں ھیں ' اس لیے پاکستان کی اصل قوموں ' پنجابی' سندھی' پٹھان اور
بلوچ کی زبانوں کو تعلیمی اور دفتری زبان بنانے سے پنجابی' سندھی' پٹھان اور بلوچ
قومیں اپنے دنیاوی امور ' اپنی زمین پر ' اپنی زبان میں ' اپنی تہذیب اور ثقافت کے
مطابق ' اپنے مذھب کی روشنی میں ' بہتر اور آسانی کے ساتھ انجام دے کر اپنی سماجی '
سیاسی ' معاشی اور اقتصادی صورتحال بہتر کر سکیں گی ' جس سے پنجابی' سندھی' پٹھان
اور بلوچ قوموں میں انتشار کا خاتمہ ھوگا اور قوموں و قبائل کا باھمی رابطہ بھی
بہتر ھوجائے گا ' گلے ' شکوے ' شکایتیں اور غلط فہمیاں ختم ھونگی ' جس سے
پیار و محبت بھی بڑھے گا ' ھم آھنگی بھی پیدا ھوگی اور پاکستان بھی مظبوط ' مستحکم
اور خوشحال ھوگا۔
No comments:
Post a Comment