پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کا اردو
بولنے والا ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان بنا جبکہ پاکستان کی آرمی کا سربراہ
پہلے برطانیہ کا شہری انگریز جنرل سر فرینک مسروی بنا اور بعد میں برطانیہ کا شہری
انگریز جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی بنا۔اس وقت دنیا امریکن اور روسی کیمپ میں تقسیم
تھی۔ پاکستان نے روس کے بجائے واضح طور پر امریکن کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ روس
کے بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر زوال کے بعد چین ایک بین الاقوامی کھلاڑی کے طور
پر ابھرنا شروع ھوا۔ چین چونکہ پاکستان کا پڑوسی ملک ھے اور چین کے ساتھ پاکستان
کے تعلقات چین کے بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر ابھرنے سے پہلے سے ھیں۔ اس لیے اب
تک پاکستان امریکن کیمپ میں بھی ھے اور چین کے ساتھ بھی پاکستان کے قریبی تعلقات
رھے ھیں۔ لیکن ساؤتھ چائنا سی کا علاقہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ بلکہ جاپان
' تائیوان ' کوریا ' فلپائن کی وجہ سے تیسری جنگِ عظیم کا باعث بن سکتا ھے۔ ساؤتھ
چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی
میں مشکل ھوگی بلکہ عرب ممالک سے چین تک تیل کی رسائی کے درمیان امریکی بحری بیڑے
حائل ھوںگے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین
کو آئل کی سپلائی گوادر سے کاشغر تک کے راستے سے بحال رہ سکتی ھے۔ سی پیک کے
منصوبے کی وجہ سے چین ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس لے جانے کی کوشش کرے گا۔
امریکہ ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس نہ جانے دینے کی کوشش کرے گا۔ یہ کھیل
2020 سے 2030 تک عروج پر رھے گا۔ اس کھیل کو " نیو گریٹ گیم " کہا جاتا
ھے۔
اس " نیو گریٹ گیم " میں پاکستان کا علاقہ گیم کا
میدان بنا ھوا ھے جبکہ پاکستان میں اس " نیو گریٹ گیم " کے اھم بین
الاقوامی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں۔ قومی کھلاڑی پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور
ن لیگ کے قائد نواز شریف ھیں۔ علاقائی کھلاڑی پی پی پی کا قائد آصف زرداری ' پی ٹی
آئی کا قائد عمران خان ' ایم کیو ایم کا قائد پرویز مشرف ھیں۔ پی پی پی کا قائد
آصف زرداری ' پی ٹی آئی کا قائد عمران خان ' ایم کیو ایم کا قائد پرویز مشرف واضح
طور پر امریکن کیمپ میں جا چکے ھیں بلکہ امریکن کیمپ کی طرف سے بڑہ چڑہ کر کھیل
کھیل رھے ھیں۔ جبکہ پاکستان کا قومی کھلاڑی ھونے کے باوجود ن لیگ کے قائد نواز
شریف کے واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں نہ جانے کی وجہ سے پاکستان کی وزارتِ
اعظمیٰ سے تو محروم ھونا ھی پڑا ھے لیکن اب بھی اگر امریکن یا چینی کیمپ میں سے
کسی ایک کیمپ کا واضح طور پر انتخاب نہ کیا تو پھر اگلے مرحلے میں جیل جانا پڑ
جانا ھے۔ جبکہ پاکستان کا قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ
کو بھی غیر جانبدار رھنے کے بجائے مستقبل قریب میں واضح طور پر امریکن یا چینی
کیمپ میں سے کسی ایک کیمپ کا انتخاب کرنا پڑنا ھے۔
پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ
وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت کے
ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے
وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ
امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر
امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی
اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے
الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد
نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔
جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے
قائد نواز شریف کے درمیان باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔
آصف زرداری ' عمران خان ' پرویز مشرف تو واضح طور پر امریکن
کیمپ میں جا چکے ھیں۔ لیکن پاکستان کا قومی کھلاڑی ھونے کے باوجود نواز شریف اگر
واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کے بجائے " نیو گریٹ گیم " کے
کھیل سے خود باھر ھوجانا ھے یا باھر کردیا جاتا ھے تو بھی پاکستان کا قومی کھلاڑی
ھونے کی وجہ سے پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ
میں جانے کا فیصلہ کرنا پڑنا ھے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے واضح طور پر
امریکن کیمپ میں جانے سے آصف زرداری ' عمران خان ' پرویز مشرف کی اھمیت بڑہ جانی
ھے اور 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت آصف زرداری ' عمران خان '
پرویز مشرف کی ھوگی لیکن پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے واضح طور پر چینی کیمپ میں
جانے سے آصف زرداری ' عمران خان ' پرویز مشرف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کا
آپس میں ٹکراؤ شروع ھوجانا ھے جبکہ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے بجائے مارشل
لاء کا نفاذ ھوگا۔
No comments:
Post a Comment