Sunday 13 August 2017

نواز شریف کی نا اھلی کے بعد پاکستان کی فوج کے ادارے کی مشکلات بڑہ گئی ھیں۔

سپریم کورٹ کا بنچ ' کیس پانامہ کا سن رھا تھا ' فیصلہ اقامہ کا سنا دیا۔ سپریم کورٹ کا بنچ اگر پانامہ کیس تک محدود رھتا اور اقامہ کا مسئلہ الیکشن کمیشن یا ھائیکورٹ کو بھیج دیتا ' جیسے پانامہ کا کیس نیب کورٹ کو بھیجا ' تو پاکستان میں سیاسی انتشار اور حکومتی بحران پیدا نہ ھوتا۔ معزز جج حضرات نے نواز شریف کو نا اھل قرار دینے کے ساتھ ساتھ گریبی میں گاڈ فادر اور سسلی مافیا کے خطاب دے کر نواز شریف کو بے تاج بادشاہ بھی قرار دے دیا۔ سوچنے کی بات ھے کہ؛ گاڈ فادر اور سسلی مافیا کیا وزاتِ اعظمیٰ کا محتاج تھا یا وزائے اعظم گاڈ فادر اور سسلی مافیا کے محتاج تھے؟ سیاسی رھنماؤں کو سیاست کے میدان میں سیاسی مقابلہ کے ذریعے عوام کی حمایت سے محروم کیا جاتا ھے ' عدالتی فیصلوں کے ذریعے یا انتظامی اختیارات کے استعمال کے ذریعے سیاسی رھنما کو عوام کی حمایت سے محروم کرنا ناقابلِ عمل ھے۔ عدالتی فیصلے سے نواز شریف وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل ھوگیا اور ن لیگ کی صدارت سے بھی محروم ھونا پڑے گا لیکن اسکے باوجود مزید عدالتی فیصلوں کے ذریعے بھی نواز شریف کو پنجاب کی عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم اور سیاست کے میدان سے باھر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ن لیگ کے عام رھنما تو اپنی جگہ اگر چوھدری نثار اور شھباز شریف بھی ن لیگ سے الگ ھوجاتے ھیں تو چوھدری نثار اور شھباز شریف کی پنجاب کی عوام میں اھمیت ختم ھوجانی ھے لیکن نواز شریف سے پنجاب کی عوام کی اکثریت نے الگ نہیں ھونا۔

اب زیادہ سے زیادہ نواز شریف کو نیب کے کیسوں میں گرفتار کیا جا سکتا ھے اور عدالت نواز شریف کی ضمانت رد کرسکتی ھے لیکن اس سے زیادہ عدالت بھی کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ عدالت زیادہ سے زیادہ نواز شریف کو سزا سنا سکتی ھے لیکن جیل میں نہیں رکھ سکتی۔ وجہ یہ ھے کہ پاکستان کے صدر کے پاس آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت عدالت سے سنائی گئی سزا کو معاف کرنے کا اختیار ھے۔ کیا عدالت نواز شریف کو سزا سناتی رھے گی اور پاکستان کا صدر سزا معاف کرتا رھے گا؟ اس لیے نواز شریف کو سیاست کے میدان سے باھر کرنے کا آخری طریقہ پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ ھے لیکن مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے دفائی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خارجی اور داخلی معاملات ' پاکستان کی عوام کے مسائل اور پاکستان کے صوبوں کی شکایات کو کنٹرول میں رکھنا پڑے گا۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی مخالفت کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا۔ جوکہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ میرے تجزیئے کے مطابق نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اھلی میں ادارے کی حیثیت سے پاکستان کی فوج کا کوئی کردار نہیں ھے۔ البتہ پرویز مشرف اور شجاع پاشا جیسے ریٹارڈ جنرل ضرور شامل تھے۔ بلکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پاکستان کی فوج کے ادارے کے لیے مشکلات بہت زیادہ بڑہ گئی ھیں۔

نواز شریف کے پنجاب کی عوام کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پنجاب میں سیاست کا تندور گرم ھوگیا ھے۔ جب تندور گرم ھوتا ھے تو پڑوسی بھی روٹیاں لگا لیتے ھیں۔ اس لیے اب یہ ناممکن ھے کہ؛ پڑوسی روٹیاں نہ لگائیں۔ بلکہ پنجاب میں گرم ھونے والے سیاست کے تندور پر تو لگتا ھے کہ؛ امریکہ ' چین اور روس نے بھی روٹیاں لگانے والوں میں شامل ھو جانا ھے۔ جبکہ سیاست کے تندور کو زیادہ دیر تک اور زیادہ گرم رکھنے کے لیے کچھ نے تو تندور میں ایندھن بھی ڈالنا شروع کر دینا ھے۔ دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے اھم کھلاڑی امریکہ ' چین ' پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ ' نواز شریف ' پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان ھیں۔ پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان واضح طور پر امریکن کیمپ کی طرف سے کھیل کھیل رھے ھیں۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز با روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔ 

پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

اس وقت الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز ' تجزیہ نگار اور کچھ سیاستدان یہ جملہ بار بار دھرا رھے ھیں کہ؛ نواز شریف بتاتا کیوں نہیں کہ نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ سے ھٹانے کی سازش کس نے کی؟ اسکا آسان اور سادہ سا جواب یہ ھے کہ؛ وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سازش وہ کر رھے تھے ' جنہوں نے الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز ' تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا ٹھیکہ دیا ھوا تھا اور یہ بھی تاثر دینے کی کوشش ھو رھی تھی کہ؛ دراصل پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام ھو رھا ھے۔ مقصد اس ٹھیکے کا ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کرنا تھا۔ میرے تجزیے کے مطابق پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام نہیں ھو رھا تھا۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ یہ کیوں چاھتی کہ؛ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن اور ن لیگ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم ھو؟ اس لیے ھی الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کی طرف سے ایک تو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کی جارھی تھی۔ دوسرا پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کیا جا رھا تھا۔ اصل میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کا ٹھیکہ دینے والے ایک تیر سے دو شکار کر رھے تھے۔ بظاھر انکا نشانہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو بدنام کرنا تھا لیکن انکا اصل نشانہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا۔ جب نواز شریف پاکستان کا وزیرِ اعظم تھا تو الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز ' تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کے پاس وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا ٹھیکہ تھا۔ اب سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے نواز شریف کو پاکستان کے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل قرار دینے کے بعد انہی اینکرز ' تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کو نواز شریف کو مشورے دینے کا ٹھیکہ دیا جائے گا کہ نواز شریف یہ کریں اور یہ نہ کریں بلکہ یہ بھی کہا جائے گا کہ نواز شریف یہ کیوں کر رھا ھے اور یہ کیوں نہیں کر رھا؟

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں نواز شریف کو زیرو ھونے کے بجائے ھیرو بننے جبکہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن اور ن لیگ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم نہ ھونے دینے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کا قائد بن کر درج ذیل 3 کام کرنے پڑیں گے؛

1۔ حکومتی اور سیاسی امور کو الگ الگ کردے۔ وفاقی اور صوبائی وزرا کے پاس پارٹی کے عہدے نہ ھوں اور پارٹی کے عہدیداروں کو وزیر نہ بنائے۔ پاکستان کی وفاقی ' پنجاب ' بلوچستان ' گلگت بلتستان اور کشمیر کی حکومتوں کو اپنے اپنے حکومتی امور انجام دینے دے۔ تمام وفاقی اور صوبائی وزرا کو اپنے اپنے محکموں میں با اختیار بناکر خود وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا کرے۔ وفاقی وزرا اپنے محکمے کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔ صوبائی وزرا اپنے محکمے کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔ ضلعی حکومتوں کے سربراھان اپنی ضلعی حکومت کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔

2۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو پاکستان کی سطح پر ' صوبوں کی سطح پر اور ضلعوں کی سطح پر منظم کرے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدیدار پاکستان کی سطح کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر متعلقہ محکموں کے وزیروں کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ محکمے کے وزیر کے صوابدیدی اختیار یا وفاقی کابینہ کی منظوری یا قومی اسمبلی سے قانون سازی کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی عہدیدار اپنے اپنے صوبے کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر متعلقہ محکموں کے وزیروں کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ محکمے کے وزیر کے صوابدیدی اختیار یا صوبائی کابینہ کی منظوری یا صوبائی اسمبلی سے قانون سازی کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی عہدیدار اپنے اپنے ضلعے کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر ضلعی حکومت کے سربراہ کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق ضلعی حکومت کے سربراہ کے صوابدیدی اختیار یا ضلع کونسل کی منظوری کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔

3۔ نواز شریف خود مارچ 2018 تک کے لیے رائیونڈ میں قیام کرے جہاں 3 بجے سے لیکر 5 بجے تک پیر کے روز پنجاب ' منگل کے روز سندھ ' بدہ کے روز بلوچستان ' جمعرات کے روز خیبر پختونخواہ ' جمعہ کے روز گلگت بلتستان ' سنیچر کے روز کشمیر سے آنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے ورکروں اور عام شہریوں سے اجتماعی ملاقات کیا کرے۔ صبح اور رات کے اوقات میں وفاقی و صوبائی وزرا ' قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ' پاکستان مسلم لیگ ن کے عہدیداروں ' دیگر سیاسی جماعتوں کے رھنماؤں ' ملکی و غیر ملکی شخصیات و وفود سے پہلے سے طے شدہ اجتماعی اور انفرادی ملاقاتیں کیا کرے اور اپنے مقدمات کے بارے وکلا کے ساتھ قانونی صلاح و مشورہ کیا کرے۔ جبکہ اتوار کا دن اپنے گھریلو امور انجام دے اور اپنا وقت اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ گذارے۔

No comments:

Post a Comment