Monday, 18 July 2016

دریائے سندھ کا نام تبدیل کردیا جائے۔

صوبہ سندھ نے صرف نام کی مماثلت کی وجہ سے دریائے سندھ پر اپنا ناجائز دعوی کررکھا ہے۔ حالانکہ موجودہ صوبہ سندھ کا دریائے سندھ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ موجودہ سندھی قوم اور زبان صرف ایک ہزار سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ اس سے پہلے چار ہزار سال تک پنجاب اور سندھ دونوں ایک ہی قوم تھے۔ ایک ہزار سال پہلے دریائے سندھ کے زیریں علاقے کو سندھ کہا جانے لگا جبکہ شمالی وادئ سندھ کو پنجاب۔

دریائے سندھ تو ہزاروں سال سے سندھو ندی کہلاتا رہا اور یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اس کا موجودہ سندھی قوم سے سرے سےکوئی تعلق ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ھے کہ موجودہ سندھی قوم کا نام دریائے سندھ کی وجہ سے پڑا ہے۔ دریائے سندھ کا نام سندھی قوم کی وجہ سے نہیں ہے۔ لیکن کچھ عقل سے پیدل نام نہاد دانشور اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر سندھ کا حق ہے۔ جو غلط ہے۔ کیا ان جاہلوں کو دریائے سندھ کی لمبائی معلوم ہے اور کیا ان کو معلوم ہے کہ دریائے سندھ کتنا موجودہ صوبہ سندھ سے گزرتا ہے؟

دریائے سندھ کا صرف ایک چو تھائی حصہ موجودہ صوبہ سندھ میں بہتا ہے۔ تو پھر اس عظیم دریا پر صرف صوبہ سندھ کا حق اکیلے کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس پر سب سے زیادہ پنجاب کا حق ہے۔ کیونکہ دریائے سندھ سب سے زیادہ پنجاب کے علاقے میں بہتا ہے۔ پھر اس میں پانی بھی سب سے زیادہ پنجاب سے شامل ہوتا ہے۔

1۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں اور نالوں کا پانی۔
2۔ مون سون کا پانی۔

دریائے سندھ میں پچاس فیصد سے زیادہ پانی مون سون کی بارشوں سے جمع ہوتا ہے اور وہ بارشیں پنجاب میں ہوتی ہیں۔

اگر علمی دلائل کے حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ کا دریائے سندھ پر کوئی حق نہیں بنتا۔ سوائے اس کے کہ پنجاب کی طرف سے سندھ کو ضرورت کے مطابق کچھ پانی دیا جاتا رھے اور سندھ اس کے بدلے میں پنجاب کا تابعدار اور فرمانبردار بنکر رہے۔

سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ دریائے سندھ کے نام کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ کچھ جاہل لوگ نام کی وجہ سے اس عظیم دریا کو جہیز کے طور پر صوبہ سندھ کو دے دیتے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ دریائے سندھ کا نام تبدیل کرکے دریائے اباسین رکھ دیا جائے یا دریائے اٹک رکھ دیا جائے۔ اس سے صوبہ سندھ کی غط فہمی دور ہوجائے گی۔ جس کی وجہ سے سندھ اور پنجاب دریا کے پانی کا ایک قابل قبول فارمولا بنا سکیں گے۔

Contributed by Shahzad Nasir

No comments:

Post a Comment