سرائیکی کا لفظ 1962 میں وجود میں لاکر سرائیکی کے نام پر پنجاب میں آباد
ھونے والے بلوچوں ' مخدوموں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے مھاجروں نے سازش کرکے
ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور ریاستی پنجابیوں کی شناخت ختم کرکے ان کو اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی غلام بنایا ھوا ھے۔
دراصل لاھور' راولپنڈی' فیصل آباد' گجرانوالا سمیت پنجاب کے شھری علاقوں پر ھندوستان
سے آکر آباد ھونے والے اردو بولنے والے اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں پر جنوبی پنجاب
میں مقیم بلوچ اپنی بالادستی قائم کر تے چلے آرھے تھے۔ جس کا پنجابی قوم نے
بروقت تدارک نہ کیا۔ جس کا نتیجا یہ نکلا کہ بالادستی کو قائم کرنے کے بعد اب یہ
عناصر اس بالادستی کو مستقل شکل دینا چاھتے ھیں۔ اسکے لئے پنجاب میں مقیم عربستان
سے آئے ھوئے لوگوں کو ' جن کا پیری فقیری اور گدی نشینی کی وجہ سے کافی اثر و رسوخ
ھے' انکو اپنے ساتھ ملا کر لاھور' راولپنڈی' فیصل آباد' گجرانوالا سمیت ' پنجاب کے
شھری علاقوں پر قابض ' ھندوستان سے آکر آباد ھونے والے اردو بولنے والے اور دیہی
علاقوں کے پنجاب میں مقیم بلوچ ' پنجاب کو سرائیکی سازش یا جنوبی پنجاب کے نام پر
تقسیم کرنے اور پنجابی قوم کو سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی مشکلات میں مبتلا
کرنے میں مصروف ھیں۔
دوسری طرف ھندوستان
عرصہ دراز سے افغانستان اور سینٹرل ایشن ممالک تک پنہچنے کے درینہ منصوبے کو عملی
جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے جنوبی علاقے سے راستہ بننانے میں مصروف رھا ھے اور
پنجاب مخالف ھر عمل میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیتا رھا ھے- جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے
بلوچوں ' مخدوموں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے مھاجروں کے جنوبی پنجاب پر قبضہ
کرنے کی خواھش کی وجہ سے ھندوستان کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے میں آسانی میسرآئی۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں اپنے لیے نظریاتی کے بجائے لسانی سیاست کو فروغ
دینے کے آسان طریقے کو اختیار کرکے ھندوستان کے عزائم کو بھرپور سھارا دیا۔ جبکہ موجودہ حالات میں پٹھان نزاد عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کے پنجاب پر قبضہ کرنے کی خواھش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی سازشیں زور پکڑ رھی ھیں۔
ماضی میں پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر ھندوستان کو اس منصوبے پر عمل درآمد
کے لیے روس کا اشتراک حاصل رھا لیکن امریکہ نے چونکہ روس کو گرم پانی تک پہنچنے سے
افغانستان میں ھی روکنا تھا ' جس کے لیے مظبوط پنجاب امریکہ کی ضرورت تھی۔ اس لئے
روس کے اشتراک کے باوجود ھندوستانی منصوبہ تو پایا تکمیل تک نہ پہنچ پایا ' لیکن
ھندوستان کی آشیرباد بحرحال پردہ درپردہ ان پنجاب مخالف بلوچوں ' مخدوموں ' پٹھانوں
اور اردو بولنے والے مھاجروں کو ملتی ھی رھی۔
موجودہ حالات میں چونکہ امریکہ ' روس کے ساتھ ساتھ چین کو بھی گرم پانی تک
پہنچنے سے روکنا چاھتا ھے ' جسکے لیے پنجاب تعاون کرنے پر تیار نہیں ' اس لیے
کمزور پنجاب اور ھندوستان کے افغانستان اور سینٹرل ایشن ممالک تک پہنچنے کا درینہ
منصوبہ ' امریکہ کے مفاد میں ھے ' اس لیے ھندوستانی عزائم کو امریکن آشیرباد بھی
حاصل ھے ' جسکی وجہ سے نہ صرف ھندوستان بلکہ امریکہ بھی پنجاب مخالف بلوچوں ' مخدوموں
' پٹھانوں اور اردو بولنے والے مھاجروں کی درپردہ مدد کرنے میں بڑہ چڑہ کر حصہ لے
رھے ھیں تاکہ پنجاب کو سرائیکی سازش یا جنوبی پنجاب کے نام پر تقسیم کروانے کی سازش
کرواکر' پنجاب میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرکے پنجابی قوم کو سیاسی ' سماجی' معاشی
اور انتظامی مشکلات میں مبتلا کرسکے ' لیکن چین اور روس کا مفاد اس کے برعکس ھے۔ اگر
روس اور چین نے گرم پانی تک پہنچنے کے لیے پنجابی قوم کی پشت پناھی شروع کردی اور
کشمیر کے ساتھ ساتھ ھندوستانی پنجاب کو بھی ھندوستان سے آزادی دلوا کر پاکستانی
پنجاب کے ساتھ کرکے ایک بار پھر سے راجہ پورس سے لیکر راجہ رنجیت سنگھ والے اصل
پنجاب کو ایک کر دیا تو نہ امریکہ کی پنجاب کو تقسیم کروانے کی کوششیں کام آئیں گی
اور نہ بلوچوں ' مخدوموں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے مھاجروں کو پنجابی قوم کے
خلاف محاذآرائی پر اکسا کر سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی مساِئل میں مبتلا
کرنے کی سازشیں رنگ دکھائیں گی بلکہ ھندوستان کو آشیرواد دے دے کر پاکستان کو
آنکھیں دکھانے کے کام پر لگانے کا خمیازہ بھی الٹا ھندوستان کو ھی بھگتنا پڑے گا
جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقے بھی پنجاب ھی کے ساتھ رھیں گے ' جس سے
پاکستان چھوٹا اور کمزور ھونے کے بجائے مزید وسیع اور مظبوط ھوجائے گا- اس صورتحال
میں امریکہ کسی حال میں بھی روس اور چین کو گرم پانی تک پہنچنے سے نہیں روک پائے
گا۔
No comments:
Post a Comment