پاکستان
میں یہ پہلی بار ھوا ھے کہ پنجابی زبان نہ بولنے کی ھدایت کرنے پر پنجابیوں نے
بھرپور اور شدید احتجاج کیا۔ لاھور ھائیکورٹ میں رٹ پتیشن داخل کردی۔ پنجاب اسمبلی
میں تحریکِ التوا جمع کروادی۔ پنجابی دانشوروں ' ڈاکٹروں ' وکیلوں ' صحافیوں '
طالب علموں نے بیکن ھاؤس اسکول سسٹم کے ھیڈ آفس کا گھیراؤ کرلیا اور بیکن ھاؤس
اسکول سسٹم کی انتظامیہ نے پنجابیوں سے معافی مانگی لیکن پنجابی معاف کرنے پر تیار
نہیں ھیں۔
اس
واقعہ کو معمولی واقعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ انقلابی واقعہ ھے۔ بیکن ھاؤس
اسکول ساھیوال نے تو کوئی انوکھا کام نہیں کیا تھا۔ انوکھا کام پنجابیوں نے کردیا
ھے۔ کیونکہ پنجابی زبان کی تذلیل اور توھین کا سلسلہ تو پاکستان کے قیام کے بعد
اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے مھاجر کا روپ دھار کر پاکستان میں داخل ھوتے ھی
شروع ھوگیا تھا۔ لیکن 21 مارچ 1948کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں جب جناح صاحب نے
انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہہ دیا کہ سرکاری زبان
اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھونگے تو
اردو نہ بولنے والے پنجابیوں کی بھی اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے تذلیل اور
توھین کرنا شروع کردی تھی۔
69 سال سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے پنجابی زبان اور پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کا سلسلہ تو جاری تھا لیکن اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجابیوں کو طعنے دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا ھوا تھا کہ؛
پنجابی غلیظ زبان ھے ' اس لیے پنجابی خود پنجابی نہیں بولتے۔
اردو
بولنے والے ھندوستانی ' شہری ھیں جبکہ پنجابی پینڈو ھیں۔
اردو
بولنے والے ھندوستانی ' مھذب ھیں جبکہ پنجابی گنوار ھیں۔
اردو
بولنے والے ھندوستانی ' پڑھے لکھے ھیں جبکہ پنجابی جاھل ھیں۔
پنجابی
زبان کا رسم الخط نہیں ھے ' اس لیے پنجابی زبان تو پنجابی لکھ ھی نہیں سکتے۔
پنجابی
زبان کا رسم الخط نہ ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کو اردو رسم الخط میں پنجابی لکھنی
پڑتی ھے۔
21 مارچ 1948کو اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے بعد سے نہ صرف تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر بلکہ نجی محفلوں اور عوامی مقامات پربھی چونکہ پنجابی زبان بولنے پر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کی جاتی تھی۔ اس لیے پنجابی زبان بولنے سے خوف زدہ ھوکر اور اردو زبان بول بول کر احاسِ کمتری کا شکار ھوجانے والے پننجابیوں میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ھوگیا جو اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے رنگ میں ڈھنگ گیا۔ پنجابی زبان بولنے سے خوف زدہ اور احاسِ کمتری کے شکار اس پنجابی نے بھی طوطے بن کر وہ ھی رٹے رٹائے الفاظ ادا کرنا شروع کردیے جو اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے سیکھے تھے اور بندر کی طرح وہ ھی کردار ادا کرنا شروع کریا جو اردو بولنے والے ھندوستانی ادا کرتے تھے۔
بحرحال ' اب بیکن ھاؤس کے پنجابی زبان نہ بولنے کی ھدایت کرنے پر پنجابیوں کے بھرپور اور شدید احتجاج نے اس امر کی وضاحت کردی ھے کہ پنجابی اب پنجابی قوم پرستی کی طرف راغب ھوچکا ھے۔ پنجابی اب پنجابی زبان اور پنجابی قوم کی تذلیل اور توھین برداشت کرنے پر تیار نہیں ھے۔ اس لیے پنجابی زبان اور پنجابیوں کے بارے توھین آمیز کلمات ادا کرنے والوں کے ساتھ پنجابی قوم نے کوئی رعایت نہیں برتنی۔ پاکستان کی 60٪ آبادی چونکہ پنجابی ھے۔ اس لیے پاکستان میں پنجابی قوم پرستی کے فروغ پانے کی وجہ سے پاکستان کے سماجی معاملات ' سیاسی نظریات ' ثقافتی ماحول اور عوامی سرگرمیوں میں ایک انقلابی تبدیلی آنے والی ھے۔
No comments:
Post a Comment