امریکی
رسالے اٹلانٹک کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں بین الاقوامی شہرت یافتہ سابق
امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر نے 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے،
اس نے پاکستانیوں کو ششدر کر دیا ہے۔
تادم
تحریر پاکستانی اعلیٰ حکام اس پر خاموش ہیں جو معنی خیز ہے۔ بقول ہینری کسنجر،
نومبر کے مہینے ہی میں، یعنی پاکستان ٹوٹنے سے صرف ایک ماہ قبل، تیسرے مارشل لاء
ایڈمنسٹریٹر، فوجی سربراہ اور از خود صدر کہلانے والے جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے
امریکی صدر رچرڈ نکسن کو قیامِ بنگلہ دیش کی نوید سناتے ہوئے اپنی رضامندی سے آگاہ
کر دیا تھا۔
البتہ
مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا مہینہ مارچ 1972 طے پایا تھا۔ یہ انٹرویو اٹلانٹک
کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب اس واقعے کو گزرے
45 برس ہونے کو ہیں۔
ہینری
کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں،
مگر وہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس کھیل میں روسی اور برطانوی ہرکارے کس طرح
شامل تھے۔
1966
میں پاکستان نے شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے چین سے معاہدہ کیا تھا۔ چین
متحدہ پاکستان کی موجودگی میں مشرقی و مغربی پاکستان کی دو اہم سمندری بندرگاہوں
کے ذریعے بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا، اور روسی ان
کے ارادوں کے امین تھے۔
پاک
چین دوستی میں ایک اہم کردار میاں افتخار الدین کا بھی ہے جو 1951 میں ایک اعلیٰ
سطحی وفد لے کر چین گئے تھے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین کو مغربی یورپ اور امریکا
تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ایک جلاوطن حکومت کو ہی اقوام متحدہ میں ویٹو طاقت حاصل
تھی جو تائیوان میں مقیم تھی۔
شاہراہِ قراقرم کے ذریعے متحدہ پاکستان تک چین کی آمد نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ اس سے نہ صرف چین کا خلیج بنگال اور خلیج فارس میں اثر و رسوخ بڑھنا تھا، بلکہ بحیرہ احمر (Red Sea) کی سیاستوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب روس اور چین کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ یوں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کے بعد عالمی سطح پر روس، برطانیہ اور امریکا چین کو روکنے والی پالیسی (China containment policy) کی طرف 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں باوجوہ یکجان ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ ہماری اشرافیہ میں یہ بحث تیز کر دی گئی کہ اب ہمیں بنگالیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔
اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن مناتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اخباروں کے ایڈیٹرز سے ملاقات میں اس باکمال تجویز کا تذکرہ کیا جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہی بات پختونوں کو ایک اور انداز سے بیچی گئی۔ ایک پختون کمیونسٹ کی کتاب ”فریب نا تمام“ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔
جمعہ خان صوفی نے اس کتاب میں ولی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب 1968 میں ایوب دورِ حکومت کے دوران گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑوا لو۔ جمعہ خان صوفی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش گروپ) میں تھے۔ بقول جمال نقوی یہ گروپ 1967 میں ہی بنگالیوں کی علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکا تھا۔
ذرا اب ہینری کسنجر کے انکشاف کو جنرل ایوب کے دو بار بنگالیوں سے جان چھڑانے والی خواہش اور جنرل یحییٰ خان کی نومبر 1971 میں قیام بنگلہ دیش پر رضامندی سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کہانی کے سرے جڑنے لگتے ہیں۔
بقول جمال نقوی 2009 میں جب میں نے نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے ایک پرانے رہنما کمال لوہانی کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ کیسے لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دسمبر 1970 کے انتخابات سے قبل مجیب الرحمان کو مضبوط اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کو کمزور کیا تھا۔ مولانا بھاشانی اس کھیل میں درد دل رکھنے والے عوامی رہنما تھے جنہیں مشرقی و مغربی پاکستان میں اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
وہ یہ سب دیکھ کر اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ مجبوراً انہیں انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ اگرتلہ کا مقدمہ بھی مجیب الرحمان کو لیڈر بنانے کے لیے کارگر رہا۔ چنگاری کو ہوا دے کر زیرک صاحبزادہ یعقوب استعفیٰ دے کر کھسک آئے۔ اشرافیہ کے ایک حلقے نے خود بنگالیوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا مگر اس کا الزام سیاستدانوں کے سر باندھنا "قومی مفاد" کی خاطر ضروری تھا۔
جنرل یحییٰ کو یہ بتلایا گیا کہ اگر دو جماعتیں مشرقی و مغربی پاکستان میں انتخاب جیتیں گی تو آپ ان کو ایک دوسرے سے لڑوا کر مستقبل کے صدر بن سکیں گے۔ مگر جو بات کسنجر نہیں کر سکے، وہ تھا بھارت کا پاکستان پر حملہ اور مجیب باہنی کا قیام۔
جب پاکستان کا صدر و فوجی سربراہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر راضی تھا تو پھر بھارت کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ آور کیوں ہونے دیا گیا؟ اس بارے میں مشہور بھارتی بنگالی کیمونسٹ موہیت سین اور پاکستانی لکھاری طارق علی نے اپنی اپنی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے۔
بھارت کو بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کھیل کے دوران متحدہ بنگال کی تحریک مضبوط نہ ہو جائے۔ اس کی نظر برابر اس پر تھی۔ بھارتی افواج دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بنانے نہیں بلکہ متحدہ بنگال کی تحریک کو کچلنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تھیں۔
پاکستان پر حملے سے چند ماہ پہلے راتوں رات مجیب باہنی کھڑی کی گئی جس کا مقصد صرف اور صرف متحدہ بنگال کے حامیوں کو مارنا تھا، جو سب کے سب چین نواز تھے۔ اگر چین نواز متحدہ بنگال ہی بنانا تھا تو پھر پاکستان توڑنے کی مہم کیوں شروع کرنی تھی۔
اپنے انٹرویو میں ہینری کسنجر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو سوویت دباؤ، بھارتی مقاصد، پاکستانی سلامتی اور چین کے شکوک و شبہات کے درمیان بہت ساری چیزوں کو مدِ نظر رکھنا تھا، اور اسی حساب سے 'ایڈجسٹمنٹ' کی گئیں۔
مشرقی پاکستان میں بھارتی ایڈوینچر پر مزید بات کیے بغیر ہینری کسنجر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس بات کی یحییٰ نے یقین دہانی کروائی تھی، وہ اور دیگر پالیسی مقاصد پورے ہوئے لہٰذا جو کچھ بھی ہوا اس پر معافی نہیں مانگی جا سکتی۔
مگر چین کو روکنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہمارا پورا خطہ برباد ہوا۔ ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور انتہا پسندیاں قومیتی و مذہبی لبادوں میں مضبوط ہوئیں جس کا پھل آج پورے خطے میں جگہ جگہ دستیاب ہے۔
نوٹ:- چین بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا۔ اس لیے ھی 1966 میں چین نے پاکستان کے ساتھ شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ چین کو روکنے کی امریکی پالیسی کے نتیجے میں ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور پورا خطہ برباد ہوا۔ لیکن اس کے باوجود چین تو گوادر تک پہنچ چکا ھے۔ 2020 تک چین نے کاشغر سے لیکر گوادر تک کے راستے کو محفوظ اور گوادر کی بندرگاہ کو بین الاقوامی معیار کا بنانا ھے اور 2030 تک چین نے بحیرہ ہند کو کنٹرول کرنا شروع کر دینا ھے۔
2030 تک چین کی اکانومی اور آرمی کی طاقت چونکہ امریکہ سے آگے نکل جانی ھے۔ اس لیے امریکہ کے پاس 2025 تک کا وقت ھے کہ یا تو سی۔پیک منصوبے کے ذریعے چین کو بحر ھند میں ڈیرے ڈالنے سے روکے یا پھر اپنا بوریا بستر لپیٹ لے۔ بلکہ جو کچھ کرنا ھے وہ 2020 تک کرلے تو زیادہ بہتر ھے۔ کیونکہ 2025 تک امریکہ اور چین کی اکانومی اور آرمی کی طاقت میں فرق بہت کم ھونا ھے ' اس لیے امریکہ کا نقصان زیادہ ھوگا۔
اس لیے اب امریکہ کے پاس دو ھی آپشن ھیں؛
ایک یہ کہ؛ سی۔پیک منصوبے کو روکنے کے لیے پاکستان سے جنگ کرے۔ لیکن سی۔پیک منصوبہ تو چین کا ھے۔ جبکہ روس کو بھی اس میں دلچسپی ھے۔ اس لیے چین اور روس کی وجہ سے جنگ نے تیسری عالمی جنگ بن جانا ھے۔
دوسرا یہ کہ؛ سی۔پیک منصوبے کی تکمیل میں چین کو بنیادی تعاون چونکہ پنجابی کا حاصل ھے ' اس لیے پنجابی کو چین کی مدد کرنے سے روکنے کے لیے غیرجانبدار ھونے کا طریقہ اختیار کروائے۔
فرض کریں؛
1۔ اگر امریکہ نے پنجابی کو راضی کرلیا کہ کشمیر اور خالصان کو لے کر گوادر کے کھیل سے الگ ھوجاؤ اور کراچی پورٹ کو استعمال کرو۔ سندھی اور مھاجر کو سمبھالو۔ گوادر کے مسئلے ' چین ' بلوچ اور پٹھان کو ھم خود دیکھ لیں گے۔ آپکا کیا خیال ھے کہ پنجابی کیا کرے گا؟ چین کیا کرے گا؟
2۔ سی-پیک کے منصوبے میں چین کے علاوہ روس کو بھی دلچسپی ھے۔ کیونکہ گوادر سے ایک راستے نے چین جانا ھے تو دوسرے راستے نے سینٹرل ایشیا سے ھوتے ھوئے روس جانا ھے۔ روس کیا کرے گا؟
3۔ اگر امریکہ کے بجائے روس اور چین نے گرم پانی تک پہنچنے کے لیے امریکہ کی پنجابی کو غیرجانبدار کرنے کی کوشش کو ناکام اور پنجابی قوم کا تعاون برقرار رکھنے کے لیے ' کشمیر کے ساتھ ساتھ ھندوستانی پنجاب کو بھی ھندوستان سے آزادی دلوا کر پاکستانی پنجاب کے ساتھ ملا کر پنجاب کا پانی کا مسئلہ حل کروا دیا۔ دھلی سے لیکر پشاور اور کشمیر سے لیکر کشمور تک کے اصل پنجاب کو ایک کر دیا تو پھر کیا ھوگا؟
4۔ بھارتی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کے 1947 سے پختونستان کے مشن کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے پٹھان نہ ابتک پختونستان بنوا پائے اور نہ اب فاٹا اور کے پی کے ' کے پختون علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1948 سے آزاد بلوچستان کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ بھی نہ ابتک آزاد بلوچستان بنوا پائے اور نہ اب بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1972 سے سندھودیش کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ نزاد سندھی اور عرب نزاد سندھی بھی نہ ابتک سندھودیش بنوا پائے اور نہ اب دیہی سندھ کے علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1986 سے جناح پور کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے مھاجر بھی نہ ابتک جناح پور بنوا پائے اور نہ اب کراچی میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔
5۔ بھارتی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے اندر ' افغانی بیک گراؤنڈ پشتونوں کو پشتونستان ' کردستانی بیک گراؤنڈ بلوچوں کو آزاد بلوچستان ' عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سندھودیش اور سرائکستان ' یوپی ' سی پی کے ھندوستانی بیک گراؤنڈ اردو بولنے والے مھاجروں کو جناح پور ' بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش سے نہ پاکستان کا کوئی علاقہ الگ ھو پانا ھے ' نہ پنجاب نے تقسیم ھو سکنا ھے اور نہ پنجابی قوم نے کمزور ھونا ھے۔
6۔ روس اور چین کے دھلی سے لیکر پشاور اور کشمیر سے لیکر کشمور تک کے اصل پنجاب کو
ایک کردینے کی صورت میں نہ صرف پنجاب نے بہت زیادہ مظبوط ھوجانا ھے بلکہ پنجابی
قوم نے بھی بہت زیادہ طاقتور ھوجانا ھے جبکہ ھندوستان اور امریکہ کی پاکستان کو
تقسیم کروانے کی کوششیں بھی ناکام ھوجانی ھیں اور بلوچ ' پٹھان ' مہاجر کو پنجابی
قوم کے خلاف محاذآرائی پر اکسا کر پنجاب کو سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی
مساِئل میں مبتلا کرنے کی سازشیں بھی۔ بلکہ ھندوستان کو آشیرباد دے دے کر پاکستان
کو آنکھیں دکھانے کے کام پر لگانے کا خمیازہ بھی الٹا ھندوستان کو ھی بھگتنا پڑے
گا۔ جبکہ بلوچستان کے بلوچ اور خیبر پختونخواہ کے پشتون علاقے بھی پنجاب ھی کے
ساتھ رھیں گے ' جس سے پاکستان چھوٹا اور کمزور ھونے کے بجائے مزید وسیع اور مظبوط
ھوجائے گا- اس صورتحال میں امریکہ کسی حال میں بھی روس اور چین کو گرم پانی تک
پہنچنے سے نہیں روک پائے گا۔
No comments:
Post a Comment