مورخہ 24 مئی 2018 کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے بل منظور کروا کر فاٹا
کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرتے وقت اگر ھزارہ کو پنجاب میں شامل کرلیا جاتا تو
دوراندیشی ھوتی۔ لیکن کوتاہ بینی کے نتائج اب مستقبل میں بھگتنے پڑیں گے۔ اب پختونوں
میں پختونائزیشن کی سوچ مزید تقویت پکڑے گی۔ جبکہ ھندکو پنجابیوں میں احساسِ
محرومی بڑھے گا۔ ھندکو کے علاوہ بھی خیبر پختونخواہ میں بہت سے غیر پختون قبائل
ھیں۔ وہ بھی پختونائزیشن کا نشانہ بنیں گے۔ ان میں بھی احساسِ محرومی بڑھے گا۔
بلآخر ھندکو صوبہ بنانا پڑے گا اور خیبر پختونخواہ کے غیر پختون قبائل خیبر
پختونخواہ میں رھنے کے بجائے ھندکو صوبہ میں شامل ھونا پسند کریں گے۔
خیبر پختونخواہ کا نام 2010 میں رکھا گیا ورنہ 1901 سے لیکر 2010
تک یہ صوبہ سرحد تھا۔ 1901 میں انگریز نے پنجاب کے مغربی علاقے کو پنجاب سے الگ
کرکے صوبہ سرحد بنا دیا تھا۔ یہ علاقہ چونکہ پنجابی قوم کا علاقہ ھے۔ اس لیے فاٹا
کے علاوہ موجودہ خیبر پختونخواہ جبکہ پرانے سرحد کے نام والے علاقے کو پنجاب کا
حصہ بنایا جانا چاھیے تاکہ اس پنجابی علاقے کو افغانستان اور فاٹا سے آکر بد امنی
اور پختونائزیشن کرنے سے بچایا جائے۔ اس کے بعد فاٹا اور بلوچستان کے پشتون علاقے
کو ملا کر پختونستان کے نام سے پٹھانوں کے لیے صوبہ بنا دیا جائے۔
بلکہ بہتر ھوگا کہ؛ پختونستان کے نام سے پٹھانوں کے لیے صوبہ بنانے
کے بعد پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان اور صوبہ سرحد سے پٹھانوں کو نکال کر صوبہ
پختونستان واپس بھیج دیا جائے اور صوبہ پختونستان کو آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد
پٹھان خود فیصلہ کرلیں گے کہ انہوں نے آزاد رھنا ھے یا پختونستان کو افغانستان کا
حصہ بنانا ھے۔
وجہ یہ ھے کہ پٹھانوں نے صوبہ سرحد میں تو بد امنی اور پختونائزیشن
شیر شاہ سوری کے وقت سے شروع کی ھوئی تھی۔ جس میں مغلوں کے ساتھ مفاھمت کے بعد
اضافہ ھوا۔ 1747 میں احمد شاہ ابدالی کے افغانستان کی سلطنت کے قیام اور پنجاب پر
قبضے کے بعد تو بے انتہا اضافہ ھوا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر سے
پٹھانوں کے قبضے کو ختم کروا کر پنجاب کو پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن
سے نجات دلوائی۔ لیکن انگریز کے پنجاب پر قبضے کے بعد پنجاب میں پٹھانوں کی بد
امنی اور پختونائزیشن پھر سے بڑھنے لگی۔ بلکہ 1901 میں تو انگریز نے موجودہ صوبہ
سرحد بنا کر پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن کی باقائدہ سرپرستی بھی کی۔
مسئلہ یہ ھے کہ صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب ' سندھ ' کراچی اور
بلوچستان میں بھی پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن بڑھتی جا رھی ھے۔ شیر شاہ
سوری کے دور سے اب تک کی صورتحال بتاتی ھے کہ پٹھانوں نے بد امنی اور پختونائزیشن
نہیں چھوڑنی۔ اس لیے مھاراجہ رنجیت سنگھ جیسے اقدامات کرکے پنجاب اور موجودہ صوبہ
سرحد کو پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن سے نجات دلوانا ضروری ھوتا جا رھا ھے۔
بلکہ سندھ ' کراچی اور بلوچستان کو بھی پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن سے
بچانا ضروری ھے۔
No comments:
Post a Comment