جب تک کسی ریاست کے سماجی معاملات ٹھیک نہ ھوں تو اس وقت تک اس ریاست کے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ھوتے۔ جب تک کسی ریاست کے انتظامی معاملات ٹھیک نہ ھوں تو اس وقت تک اس ریاست کے معاشی معاملات ٹھیک نہیں ھوتے۔ جب تک کسی ریاست کے معاشی معاملات ٹھیک نہ ھوں تو اس وقت تک اس ریاست کے اقتصادی معاملات ٹھیک نہیں ھوتے۔ جب تک کسی ریاست کے اقتصادی معاملات ٹھیک نہ ھوں تو اس وقت تک وہ ریاست ترقی نہیں کرتی۔
چوھدری رحمت علی گجر نے 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" وادیء سندھ کی تہذیب والی زمین کے پانچ یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا اور "وادیء سندھ" کی تہذیب والی زمین اب پاکستان ھے۔ وادیء سندھ کی تہذیب والی زمین کو پہلے "سپتا سندھو" کہا جاتا رھا اور اب "پاکستان" کہا جاتا ھے۔
سپتا سندھو یا وادیء سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے ھونے کی وجہ سے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی کی تہذیب میں مماثلت ھے۔ صرف ثقافت اور زبان میں معمولی معمولی سا فرق ھے۔ مزاج اور مفادات بھی آپس میں ملتے ھیں۔ اس لیے ایک خطے کے باشندے دوسرے خطے میں نقل مکانی کی صورت میں اس ھی خطے کی ثقافت میں جذب اور زبان کو اختیار کرلیتے رھے ھیں۔
پاکستان کو اگر چوھدری رحمت علی گجر کے تجویز کردہ علاقوں پر بنایا جاتا تو سوائے راجستھان اور گجرات کے علاقوں کے پاکستان مکمل طور پر "وادیء سندھ" کی تہذیب والی زمین پر قائم ھوتا اور موجودہ پاکستان سے زیادہ خوشحال ' ترقی یافتہ اور مظبوط ملک ھوتا۔
1۔ نہ مذھب کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے جاتے۔
2۔ نہ 2 کروڑ پنجابی نقل مکانی کی وجہ سے بے گھر ھوتے۔
3۔ نہ سندھی ھندوؤں کو اپنے آبائی زمین سے در بدر کیا جاتا۔
4۔ نہ کشمیر کے باشندے سات دھائیوں سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ھوتے۔
5۔ نہ اترپردیش کے مسلمان پاکستان آکر پاکستان کی حکومت ' سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکریوں اور شھری علاقوں پر قابض ھوتے۔
6۔ نہ پاکستان کی قومی زبان "گنگا جمنا" والی اردو ھوتی۔
7۔ نہ قومی لباس لکھنو کی شیروانی ھوتی۔
8۔ نہ " وادیء سندھ کی تہذیب " والی زمین پر صدیوں سے مل جل کر رھنے والی قومیں آپس میں دست و گریباں ھوتیں۔
پاکستان کے قائم ھوتے ھی اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کے پاکستان کا وزیرِ اعظم بن جانے ' پاکستان کی بیوروکریسی پر اترپردیش والوں کے قابض ھوجانے ' پاکستان کی سیاست اور صحافت اترپردیش والوں کے ھاتھ آجانے ' پاکستان کے شھری علاقوں پر اترپردیش والوں کے چھا جانے کی وجہ سے لیاقت علی خاں کو "پاکستان کا بنیادی فریم ورک" اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے فائدے والا جبکہ پاکستان کی اصل قوموں کے لیے نقصان والا بنانے کا موقع مل گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں؛
1۔ سماجی عدمِ استحکام ھے۔
2۔ انتظامی بدنظمی رھتی ھے۔
3۔ معاشی مسائل بڑہ رھے ھیں۔
4۔ اقتصادی پسماندگی بڑہ رھی ھے۔
5۔ پاکستان تباہ و برباد ھو رھا ھے۔
لیکن اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم کے بنائے ھوئے "پاکستان کے بنیادی فریم ورک" کو تبدیل نہیں کیا جا رھا۔
پاکستان کے باشندے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ھندکو ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)
اس لیے "وادیء سندھ کی تہذیب" کے فروغ اور پنجابی ' سماٹ ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ھندکو ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے باھمی سماجی تنازعات کو ختم کرکے بہتر سماجی تعلقات قائم کرنے کے لیے ضروری ھے کہ؛
اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم کے بنائے ھوئے "پاکستان کے بنیادی فریم ورک" کو تبدیل کرکے پاکستان کی اصل قوموں کے سماجی مزاج اور مفاد کے مطابق "پاکستان کا بنیادی فریم ورک" بنایا جائے۔ تاکہ پاکستان میں؛
1۔ سماجی استحکام پیدا ھوسکے۔
2۔ انتظامی بدنظمی ختم کی جاسکے۔
3۔ معاشی بحران ختم کیا جاسکے۔
4۔ اقتصادی ترقی کی جاسکے۔
5۔ پاکستان کو تباہ و برباد ھونے سے بچایا جا سکے۔
No comments:
Post a Comment