Monday, 15 April 2019

دیہی سندھ کے سندھیوں کا کراچی پر قبضہ کیوں ھے؟

پاکستان کے قیام کے بعد بنگالی اور پنجابی کے پاکستان کی بڑی قومیں ھونے کی وجہ سے پاکستان کا گورنر جنرل اور وزیرِ اعظم بنگالی اور پنجابی ھونے چاھیے تھے۔ لیکن پاکستان بنانے کے لیے پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے پاکستان کے قائم ھوتے ھی بمبی کا خوجہ محمد علی جناح پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا۔ یوپی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خاں پاکستان کا وزیرِ اعظم بن گیا۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا بھی اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ 1950 میں جب پاکستان معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ اب یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ تین دھائیوں سے ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیوقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔ اس لیے کراچی کو مستقل طور پر سماجی انتشار ' سیاسی بحران ' انتظامی بدنظمی ' معاشی عدمِ استحکام اور اقتصادی زوال میں مبتلا رکھنے کے لیے مھاجر الطاف حسین نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے کراچی میں " سیاسی پراکسی" کے کھیل کو کھیل کر "دانشورانہ دھشت گردی" کے ذریعے 1986 سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو گمراہ کرکے انکی سوچ کو تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اس لیے ھندوستانی مھاجر ' پنجاب کے خلاف سازشیں اور شرارتیں کرنے میں لگے رھے۔ جھوٹے قصے ' کہانیاں تراش کر پنجاب پر الزام تراشیاں کرتے رھے۔ گالیاں دیتے رھے۔ اپنے علاقوں میں پنجابیوں پر ظلم اور زیادتیاں کرتے رھے۔ اپنے علاقوں میں کاروبار کرنے والے پنجابیوں کو واپس پنجاب نقل مکانی کرنے پر مجبور کرتے رھے بلکہ پنجابیوں کی لاشیں تک پنجاب بھیجتے رھے۔

پنجاب کو بلیک میل کرنے کے لیے مھاجر جناح پور کی سازشیں اور شرارتیں کرتے رھے بلکہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دشمنوں سے سازباز کرکے پاکستان دشمنی کے اقدامات تک کرنے میں لگے رھے۔ مھاجروں کی حرکتوں کی وجہ سے کراچی کی دوسری بڑی آبادی ' جو کہ پنجابی ھے ' ذھنی طور پر حراساں اور سماجی پچیدگی کا شکار رھی۔ جسکی وجہ سے اپنے گھریلو اور کاروباری امور کے بارے میں پریشان رھتی رھی۔ ھندوستانی مھاجر نے اپنا وطیرہ بنائے رکھا کہ ھر وقت پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے الفاظ ادا کرکے پنجاب اور پنجابی کو گالیاں دی جائیں۔ الزام تراشیاں کی جائیں۔ اپنے اپنے علاقے میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جائے۔ تاکہ ایک تو پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ دوسرا کراچی پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ تیسرا پاکستان کے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے پاکستان کے دشمنوں سے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج اب تک بھارت کی "سیاسی پراکسی" کے ذریعے کراچی میں "دانشورانہ دھشت گردی" کا سیاسی طور پر تدارک کرنے میں ناکام رھی ھے۔ جبکہ انتظامی اقدامات سے بھارت کی سازشوں اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکا تو جاتا رھا لیکن ختم نہیں کیا جاسکا۔

پاکستان کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 14،910،352 ھے۔ اردو بولنے والے 5،278،245 ھیں۔ پشتو بولنے والے 2،296،194 ھیں۔ پنجابی بولنے والے 2،236،563 ھیں۔ سندھی بولنے والے 1،491،044 ھیں۔ بلوچی بولنے والے 760،428 ھیں۔ سرائیکی بولنے والے 536،773 ھیں۔ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی سمیت دیگر زبانیں بولنے والے 2،311،105 ھیں۔

کراچی میں پنجابی معاشی طور مستحکم ھیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مظبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔ اس سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی مھاجر کو رزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو اور خیبر پختونخواہ سے جانے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔

پاک فوج کی ایک کور ' پاک بحریہ کے اھم اڈوں ' پاک فضائیہ کے اھم اڈوں ' وفاقی اداروں کے دفاتر اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفسوں میں پنجابیوں کی اکثریت کی وجہ سے کراچی میں پنجابی کی انتظامی اھمیت بھی ھے۔ سیاسی اھمیت بھی ھے۔ سماجی اھمیت بھی ھے۔

کراچی کے بہترین رھائشی علاقوں کلفٹن ' ڈیفینس اور کینٹ کے علاقوں میں رھنے والوں کی اکثریت پنجابیوں کی ھے۔ جبکہ سندھی اور بلوچ زیادہ تر کراچی کے گاؤں ' گوٹھوں پر مشتمل دیہی علاقوں میں رھتے ھیں۔ پٹھان زیادہ تر کراچی کی کچی آبادیوں کے کچے پکے اور ناجائز تعمیر کردہ مکانوں میں رھتے ھیں۔ ھندوستانی مھاجر زیادہ تر ضلع وسطی اور ضلع کورنگی کی گنجان آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رھتے ھیں۔

کراچی میں اھم مسئلہ یہ ھے کہ؛ کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' گجراتی ' راجستھانی پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے۔ جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔ لہٰذا کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو قانون اور اخلاق کے دائرے میں رکھنے کے لیے ھی دیہی سندھ کے سندھیوں کو کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانے کے لیے پنجابی اشرافیہ حمایت کرتی ھے اور وفاقی ادارے تعاون کرتے ھیں۔ لیکن دیہی سندھ کے سندھی چونکہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ھیں اس لیے پنجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت اور وفاقی اداروں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے خدشہ کو ملحوظ رکھتے ھوئے دیہی سندھ کے سندھیوں کو آگاہ کرنا ضروری ھے کہ دیہی سندھ کے سندھی نے اگر پنجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت اور وفاقی اداروں کے ساتھ تعاون نہ کیا تو کراچی کو الگ صوبہ بنادیا جائے گا۔ کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے بعد کراچی کے پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی اور پٹھان وفاقی اداروں کے تعاون کی وجہ سے آسانی کے ساتھ کراچی صوبہ پر حکومت کر سکتے ھیں۔ بلکہ ایسی صورت میں کراچی میں رھنے والے 1،491،044 سندھی 760،428 بلوچی 536،773 سرائیکی بھی پبجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت کرنے کو ترجیح دیں گے جبکہ ھندوستانی مھاجروں کی بڑی تعداد بھی اپنی اصلاح کرنا شروع کرسکتی ھے۔

کراچی کی صورتحال یہ ھے کہ کراچی میں سندھی بولنے والے صرف 1،491،044 ھیں۔ اس لیے دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانا اس وقت تک ممکن نہیں ھے جب تک ھندوستانی مھاجر کو کراچی کی مکمل حکمرانی اور سندھ کی حکومت میں آدھا حصہ نہ دیں۔ اس صورت میں پنجابی اشرافیہ کی حمایت کی تو ضرورت نہیں لیکن وفاقی اداروں کا تعاون پھر بھی انتہائی ضروری ھے یا پھر دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے ضروری ھے کہ کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانے کے لیے پنجابی اشرافیہ دیہی سندھ کے سندھیوں کی حمایت کرے اور وفاقی ادارے تعاون کریں ورنہ 14،910،352 آبادی کے شھر میں بیٹھ کر صرف 1،491،044 سندھیوں کے تعاون کی بنیاد پر دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے سندھ کی حکومت چلانا ناممکن ھے۔ بلکہ ایسی صورت میں آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کراچی کو الگ صوبہ بنانے میں دقت کے باوجود بھی کراچی کو الگ صوبہ بننے سے روکنا دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے عملی طور پر ناممکن رھنا ھے۔ کیونکہ کراچی کے 5،278،245 اردو 2،296،194 پشتو 2،236،563 پنجابی 2،311،105 ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی و دیگر جو کہ کراچی کی آبادی کا 12,122,107 بنتے ھیں۔ انکے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے کو دیہی سندھ کے سندھی صرف اس بنیاد پر مسترد نہیں کرسکتے کہ کراچی کی  14،910،352 آبادی میں 1،491،044 سندھی بولنے والے رھتے ھیں۔

No comments:

Post a Comment