چوھدری رحمت علی گجر نے 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" وادیء سندھ کی تہذیب والی زمین کے پانچ یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا اور وادیء سندھ کی تہذیب والی زمین اب پاکستان ھے۔ وادیء سندھ کی تہذیب والی زمین کو پہلے سپتا سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا ھے۔
وادیء سندھ سے مراد 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ نہیں بلکہ موجودہ پاکستان ' افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ ' وادیء سندھ میں شمار ھوتا ھے۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی قومیں وادیء سندھ کی تہذیب یا "انڈس ویلی سولائزیشن" کی اصل قومیں ھیں۔ وادیء سندھ کی تہذیب قدیم مصر اور میسوپوٹامیا کے ساتھ ساتھ دنیا کی تین ابتدائی پرانی تہذیبوں میں سے ایک تھی۔
وادیء سندھ سے مراد 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ نہیں بلکہ موجودہ پاکستان ' افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ ' وادیء سندھ میں شمار ھوتا ھے۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی قومیں وادیء سندھ کی تہذیب یا "انڈس ویلی سولائزیشن" کی اصل قومیں ھیں۔ وادیء سندھ کی تہذیب قدیم مصر اور میسوپوٹامیا کے ساتھ ساتھ دنیا کی تین ابتدائی پرانی تہذیبوں میں سے ایک تھی۔
سپتا
سندھو یا وادیء سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے ھونے کی وجہ سے پنجابی ' سماٹ
' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کی
تہذیب میں مماثلت ھے۔ صرف ثقافت اور زبان میں معمولی معمولی سا فرق ھے۔ مزاج اور
مفادات بھی آپس میں ملتے ھیں۔ اس لیے ایک خطے کے باشندے دوسرے خطے میں نقل مکانی
کی صورت میں اس ھی خطے کی ثقافت میں جذب اور زبان کو اختیار کرلیتے رھے ھیں۔
تاریخ
سے ظاھر ھوتا ھے کہ وادیء سندھ کی پانچ ھزار سالہ تاریخ میں وادیء سندھ کے اصل
باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ ایک دوسرے کو
ملغوب کرنے کی کوشش کی۔
وادیء
سندھ کی تہذیب کے علاقے پنجاب کے جنوب میں میں بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد آباد ھیں
جبکہ وادیء سندھ کی تہذیب کے علاقے سندھ کے جنوب میں میں پنجابی ' پٹھان اور ھندوستانی
مھاجر آباد ھیں۔ جنوبی پنجاب میں ملتانی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی ' ریاستی
پنجابی اکثریت میں ھیں جبکہ بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد اقلیت میں ھیں۔ جنوبی سندھ
میں پنجابی ' پٹھان اور ھندوستانی مھاجر اکثریت میں ھیں جبکہ سندھی اقلیت میں ھیں۔
جنوبی
پنجاب میں آباد بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد پنجاب کو تقسیم کرکے جنوبی پنجاب صوبہ
بنانا چاھتے ھیں جبکہ سندھی سیاستدان اور دانشور جنوبی پنجاب کے علاقے کو جنوبی
پنجاب میں آباد بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد کا علاقہ قرار دیتے رھتے ھیں اور جنوبی
پنجاب صوبہ بنانے کی زور و شور کے ساتھ حمایت کرتے رھتے ھیں۔ جنوبی سندھ میں آباد پنجابی
' پٹھان اور ھندوستانی مھاجر سندھ کو تقسیم کرکے جنوبی سندھ صوبہ بنانا چاھتے ھیں جبکہ
پنجابی سیاستدان اور دانشور جنوبی سندھ کے علاقے کو جنوبی سندھ میں آباد پنجابی '
پٹھان اور ھندوستانی مھاجر کا علاقہ قرار دیتے رھتے ھیں اور جنوبی سندھ صوبہ بنانے
کی زور و شور کے ساتھ حمایت کرتے رھتے ھیں۔
جنوبی
پنجاب میں آباد یا قابض بلوچوں ' پٹھانوں اور عربی نزادوں کی پنجاب کو تقسیم کرکے
جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سازشوں سے پنجابی قوم کو پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ھے۔
پنجاب میں صوبہ بنا تو پھر بات پاکستان بھر میں صوبے بنانے کے بعد ھی ختم ھوگی۔
سندھی
سیاستدانوں اور دانشوروں کی حرکتوں کی وجہ سے پنجاب تقسیم ھوا تو پنجاب میں 2 نہیں
بلکہ پنجاب کے 5 صوبے بنیں گے ؛ 1۔ بہاولپور ڈویژن پر مشتمل صوبہ جنوب مشرقی پنجاب
2۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن پر مشتمل صوبہ جنوب مغربی
پنجاب۔ 3۔ ملتان ڈویژن اور فیصل آباد ڈویژن پر مشتمل صوبہ وسطی پنجاب۔ 4۔
گوجرانوالہ ڈویژن ' لاھور ڈویژن اور ساھیوال ڈویژن پر مشتمل صوبہ شمال مشرقی
پنجاب۔ 5۔ راولپنڈی ڈویژن ' سرگودھا ڈویژن ' کوھاٹ ڈویژن اور بنوں ڈویژن پر مشتمل
صوبہ شمال مغربی پنجاب۔ پنجاب کے 5 صوبے بنانے کے بعد بھی تمام صوبوں میں اکثریت
پنجابی کی ھی ھوگی جبکہ بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد اقلیت میں ھونگے۔
پنجاب
کے 5 صوبے بنانے کے بعد پاکستان کے دیگر صوبوں خیبرپختونخوا ' بلوچستان اور سندھ
میں بھی 7 صوبے بنیں گے۔ 1۔ ھزارہ ڈویژن ' مردان ڈویژن ' مالاکنڈ ڈویژن اور پشاور
ڈویژن پر مشتمل صوبہ ھندکو۔ 2۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل صوبہ
پختونخوا۔ 3۔ ژوب ڈویژن ' کوئٹہ ڈویژن اور سبی ڈویژن پر مشتمل صوبہ پشتونخوا۔ 4۔
قلات ڈویژن اور مکران ڈویژن پر مشتمل صوبہ براھوستان۔ 5۔ نصیر آباد ڈویژن اور
لاڑکانہ ڈویژن پر مشتمل صوبہ سرائیکستان۔ 6۔ سکھر ڈویژن ' حیدرآباد ڈویژن اور
میرپور خاص ڈویژن پر مشتمل صوبہ سماٹستان۔ 7۔ کراچی ڈویژن پر مشتمل صوبہ کراچی بھی
بنیں گے۔
خیبرپختونخو
' بلوچستان اور سندھ میں 7 صوبے بنانے سے صوبہ ھندکو میں اکثریت پنجابی کی ھوگی۔
صوبہ پختونخوا میں اکثریت پختونخوں کی ھوگی۔ صوبہ پشتونخوا میں اکثریت پشتونخوں کی
ھوگی۔ صوبہ براھوستان میں اکثریت بروھیوں کی ھوگی۔ صوبہ سرائیکستان میں اکثریت
بلوچوں کی ھوگی۔ صوبہ سماٹستان میں اکثریت سماٹ کی ھوگی۔ صوبہ کراچی میں اکثریت
پنجابی اور پٹھان کی ھوگی۔
پاکستان
کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 14،910،352 ھے۔ اردو بولنے والے
5،278،245 ھیں۔ پشتو بولنے والے 2،296،194 ھیں۔ پنجابی بولنے والے 2،236،563 ھیں۔
سندھی بولنے والے 1،491،044 ھیں۔ بلوچی بولنے والے 760،428 ھیں۔ سرائیکی بولنے
والے 536،773 ھیں۔ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی سمیت دیگر زبانیں بولنے والے
2،311،105 ھیں۔
کراچی
میں پنجابی معاشی طور مستحکم ھیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی
اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی
معیشت مظبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب
سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔ اس سے نہ
صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی
مھاجر کو رزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو بلوچستان سے جانے
والے بلوچ کو اور خیبر پختونخواہ سے جانے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔
پاک
فوج کی ایک کور ' پاک بحریہ کے اھم اڈوں ' پاک فضائیہ کے اھم اڈوں ' وفاقی اداروں
کے دفاتر اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفسوں میں پنجابیوں کی اکثریت کی وجہ سے
کراچی میں پنجابی کی انتظامی اھمیت بھی ھے۔ سیاسی اھمیت بھی ھے۔ سماجی اھمیت بھی
ھے۔
کراچی
کے بہترین رھائشی علاقوں کلفٹن ' ڈیفینس اور کینٹ کے علاقوں میں رھنے والوں کی
اکثریت پنجابیوں کی ھے۔ جبکہ سندھی اور بلوچ زیادہ تر کراچی کے گاؤں ' گوٹھوں پر
مشتمل دیہی علاقوں میں رھتے ھیں۔ پٹھان زیادہ تر کراچی کی کچی آبادیوں کے کچے پکے
اور ناجائز تعمیر کردہ مکانوں میں رھتے ھیں۔ ھندوستانی مھاجر زیادہ تر ضلع وسطی
اور ضلع کورنگی کی گنجان آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رھتے ھیں۔
کراچی
میں اھم مسئلہ یہ ھے کہ؛ کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے کراچی میں
رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' گجراتی ' راجستھانی پر اپنی اجارہ داری
قائم کی ھوئی ھے۔ جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا
ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی
معاملات کے لحاظ سے کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر
ھیں۔
کراچی
میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو قانون اور اخلاق کے دائرے میں رکھنے کے
لیے ھی دیہی سندھ کے سندھیوں کو کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانے کے لیے
پنجابی اشرافیہ حمایت کرتی ھے اور وفاقی ادارے تعاون کرتے ھیں۔ لیکن دیہی سندھ کے
سندھی چونکہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ھیں اس لیے پنجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت اور
وفاقی اداروں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے خدشہ کو ملحوظ رکھتے ھوئے جبکہ سندھی
سیاستدانوں اور دانشوروں کے جنوبی پنجاب کے علاقے کو جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ '
پٹھان اور عربی نزاد کا علاقہ قرار دیتے رھنے اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی زور و
شور کے ساتھ حمایت کرتے رھنے کی وجہ سے دیہی سندھ کے سندھیوں کو آگاہ کرنا ضروری
ھے کہ؛ دیہی سندھ کے سندھی نے اگر پنجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت اور وفاقی اداروں
کے ساتھ تعاون نہ کیا جبکہ سندھی سیاستدان اور دانشور اگر جنوبی پنجاب کے علاقے کو
جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد کا علاقہ قرار دیتے رھنے اور جنوبی
پنجاب صوبہ بنانے کی زور و شور کے ساتھ حمایت کرتے رھنے کی حرکتوں سے باز نہ آئے
تو؛ کراچی کو الگ صوبہ بنادیا جائے گا۔
کراچی
کو الگ صوبہ بنانے کے بعد کراچی کے پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی
بلتستانی اور پٹھان وفاقی اداروں کے تعاون کی وجہ سے آسانی کے ساتھ کراچی صوبہ پر
حکومت کر سکتے ھیں۔ بلکہ ایسی صورت میں کراچی میں رھنے والے 1،491،044 سندھی
760،428 بلوچی 536،773 سرائیکی بھی پبجابی اشرافیہ کے ساتھ مفاھمت کرنے کو ترجیح
دیں گے جبکہ ھندوستانی مھاجروں کی بڑی تعداد بھی اپنی اصلاح کرنا شروع کرسکتی ھے۔
کراچی
کی صورتحال یہ ھے کہ کراچی میں سندھی بولنے والے صرف 1،491،044 ھیں۔ اس لیے دیہی
سندھ کے سندھیوں کے لیے کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانا اس وقت تک ممکن
نہیں ھے جب تک ھندوستانی مھاجر کو کراچی کی مکمل حکمرانی اور سندھ کی حکومت میں
آدھا حصہ نہ دیں۔ اس صورت میں پنجابی اشرافیہ کی حمایت کی تو ضرورت نہیں لیکن
وفاقی اداروں کا تعاون پھر بھی انتہائی ضروری ھے یا پھر دیہی سندھ کے سندھیوں کے
لیے ضروری ھے کہ کراچی میں بیٹھ کر سندھ کی حکومت چلانے کے لیے پنجابی اشرافیہ
دیہی سندھ کے سندھیوں کی حمایت کرے اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔
کراچی
کی 14،910،352 آبادی کے شھر میں بیٹھ کر صرف 1،491،044 سندھیوں کے تعاون کی بنیاد
پر دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے سندھ کی حکومت چلانا ناممکن ھے۔ بلکہ ایسی صورت
میں آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کراچی کو الگ صوبہ بنانے میں دقت کے باوجود
بھی کراچی کو الگ صوبہ بننے سے روکنا دیہی سندھ کے سندھیوں کے لیے عملی طور پر
ناممکن رھنا ھے۔ کیونکہ کراچی کے 5،278،245 اردو 2،296،194 پشتو 2،236،563 پنجابی
2،311،105 ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی و دیگر جو کہ کراچی کی آبادی
کا 12,122,107 بنتے ھیں۔ انکے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے کو دیہی سندھ کے
سندھی صرف اس بنیاد پر مسترد نہیں کرسکتے کہ کراچی کی 14،910،352
آبادی میں 1،491،044 سندھی بولنے والے رھتے ھیں۔
No comments:
Post a Comment