افغانستان
ایشیا کا ایک ملک ہے۔ جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب
اور مشرق میں پاکستان ' مغرب میں
ایران ' شمال مشرق میں چین ' شمال میں
ترکمانستان ' ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک
سے افغانستان کے تاریخی ' مذہبی اور
ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ افغانستان کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب
ایرانیوں ' یونانیوں ' عربوں '
ترکوں ' منگولوں ' برطانیوں '
روسیوں کے قبضے میں رہا ہے اور اب امریکہ کے قبضے میں ہے۔ ایک
ملک کے طور پر 1747ء میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ درانی
سلطنت کے قیام کے ساتھ افغانستان کے نام سے ابھرا۔
1919ء میں شاه امان الله خان
کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان نے آزادی حاصل
کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں
اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ نے کبھی اس پر
مکمل قبضہ نہیں رکھا لیکن آج افغانستان امریکی قبضہ
میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
افغانستان
1979 سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ
کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے
ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
افغانستان
کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے۔ اگرچہ
افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے
کہ وہ وسطی ایشیاء ' جنوبی ایشیاء
اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا
نسلی ' مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے
اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری
طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔
قبل
اسلام ' فارس کے بادشاہ
شاپور اول کا سکہ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی کا افغانستان
افغانستان
میں پچاس ہزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی
اولین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔
جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329
قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل
ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ 642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً
ہنوں ' منگولوں ' ساسانیوں اور
ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی
اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں
کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی
مذاہب کے پیروکار تھے۔
اسلامی
دور سے احمد شاہ درانی (ابدالی) (642ء سے 1747ء) تک کا افغانستان
642ء
میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو
ہی بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ 998ء میں محمود غزنوی نے ان
سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انہیں غزنی کے
علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان
کو تاراج کر دیا۔ ھرات ' غزنی اور بلخ
مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے
چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل
کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔
سولہویں
صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک '
مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔
1709ء میں پشتونوں نے میرویس خان هوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور
1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر قبضہ رکھا۔ 1729ء میں
ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے
حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔
پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان
ہیں۔
افغانستان
میں درانی سلطنت (
1747ء سے 1823ء)
احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ احمد شاہ درانی کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون 1747ء میں نادر شاہ قتل ہوگیا ' جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ درانی کو سربراہ چن لیا۔ پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تمام تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے پر صرف کی۔
درانی
سلطنت میں موجودہ ایران ' افغانستان '
پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقے شامل
تھے۔ احمد شاہ درانی کی سلطنت میں ایران کے شہر مشہد سے لے کر کشمیر اور موجودہ بھارت
کے شہر دہلی تک کے علاقے شامل تھے۔ احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء
میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دینا تھا لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں
نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آھستہ آھستہ پنجاب کے کئی علاقوں پر قبضہ کر
لیا لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
افغانستان پر 1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی
اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو 1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ بعد
میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔
افغانستان
میں یورپی اثر
(1823ء۔1919ء)
امیر
دوست محمد خان نے 1826ء میں کابل کی حکومت
سنبھالنے کے بعد روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا
شروع کیے کیونکہ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں حکومت قائم کرنے کے بعد اور درانی سلطنت کے قبضے سے پنجاب کے علاقے آزاد کروانے کے بعد افغانستان کی سرحوں پر دباؤ بڑھادیا تھا جبکہ انگریزوں نے بھی افغانستان میں
اپنا اثر پڑھانا شروع کردیا تھا۔
گوکہ روس اور بحرِ ھند میں کئی
ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو ' خیوا '
بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے
کہ روسی بحرِ ھند پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے روسیوں کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے
لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو "عظیم چالبازیوں" (دی گریٹ گیم) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
افغانستان پر اپنا اثر پڑھانے کے لیے انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ 1839ء سے 1842ء
تک ہوئی اور انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست
محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ لیکن بحر ھند سے کابل تک
انگریز فوج کو رسد کی فراقمی میں مشکلات کی وجہ سے انگریز فوج کی جنگی صلاحیت
کمزور پڑنے پر افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر
قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسی وجہ سے
مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا اور 1843 ء میں سندھ کو فتح کرنے کے بعد
اور کوئٹہ میں فوجی چھاؤنی قائم کرکے بحر ھند سے کابل تک انگریز فوج کے لیے رسد کی
فراھمی کو موثر بنایا۔ جبکہ پنجاب کے حکمراں
مھاراجہ رنجیٹ سنگھ کے 1939 ء میں انتقال کے بعد پنجاب میں حکمرانی کے انتشار اور بحران کا فائدہ اٹھاتے
ھوئے 1849 ء میں پنجاب پر بھی قبضہ کرلیا۔ جسکے
بعد
دوسری جنگ 1878ء سے 1880ء تک اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت
کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔
اس
جنگ میں انگریزوں کی
کامیابی
کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل
کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اسی
اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے روس کی سرحد کو پنجاب کی سرحد سے الگ کرنے کے لیے پنجاب کے کچھ علاقے
افغانستان میں شامل کرنے جبکہ پنجاب کے کچھ مغربی اور افغانستان کے کچھ مشرقی
علاقوں کو ملا کر پنجابیوں اور پشتونوں کا ایک مخلوط علاقہ بنانے کے لیے افغانستان کے
ساتھ 1893 ء میں پنجاب اور افغانستان کی
سرحدوں
کے تعین کا معاہدہ بھی کیا جسے "ڈیورنڈ لائن"
کہا جاتا ہے۔ جسکے بعد 1901 ء میں پنجاب کے مغربی
علاقوں کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ تشکیل دے دیا۔
امیر
عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے
دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ
بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ 1907ء میں امیر
حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغربی
دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری
1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا
اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919ء کو امان اللہ خان اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں
انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر
تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی یومِ آزادی کے طور
پر منایا جاتا ہے۔
آزادی
کے بعد (1919ء-1978ء) تک کا افغانستان
امان
اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار
سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں
بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے
1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی
تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔
1927ء
میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی
کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر قبائل میں بغاوت پھوٹ
پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد
سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے
تاجک بھی کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار
بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو
گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات
پائی۔
اس
بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ
کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل
نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔
جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ
دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار افراد کی فوج بھی
تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن
بنا کر بچہ سقا کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔
نادر
خان کا دورِ اقتدار: 1929ء۔1933ء تک کا تھا۔ نادر خان ' امان اللہ خان
کا رشتہ دار تھا۔ اس نے نادر شاہ کے نام سے
1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے
قتل کر دیا۔ جس کے بعد اسکا انیس سالہ بیٹا
ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔
ظاہر
شاہ کا دورِ اقتدار: 1933ء۔1973ء تک کا تھا۔ ظاہر شاہ نے چالیس سال تک افغانستان
پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی
مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد)
تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان
سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات
ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفا دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت:
1973ء-1978ء) نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر
قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔
ظاہر
شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں
قتل کر دیا گیا اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے
ممکن بنایا گیا۔ نور محمد ترہ کئی کی حکومت نے
کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی '
جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی
امریکہ کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا
شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی
حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح
روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔
افغانستان
پر روسی قبضہ اور
جہاد
افغانی
کمیونسٹ حکومت نے روس کی کمیونسٹ پارٹی کی
طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت
نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت
کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔25 دسمبر، 1979ء کو روسی فوج
کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ
نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکہ کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ
روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ افغان مجاہدین
اسلام سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ امریکی سی
آئی اے ' پاکستان اور سعودی عرب
نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور
کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989ء میں مکمل طور پر افغانستان سے
نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس
سلسلے میں روس ' افغانستان اور پاکستان کے
درمیان 1988ء میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔
افغانستان
روسیوں کے بعد
روس
نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری
رکھی مگر 18 اپریل 1992ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد
شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی جمہوریہ
بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکی اسلحہ کی مدد
سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو
گئی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی
اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا
چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب
فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس
سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔
پاکستان
اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں
طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال کرنے
کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ
کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر
المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے 2000ء تک افغانستان کے پچانوے فی صد علاقے پر
قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم
رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے
تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے
شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی
دنیا اور بھارت کو ہرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو
افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں
بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے
دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف
طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں
قائم ہو گئی۔
افغانستان
میں امریکی قبضہ اور حالاتِ حاضرہ
طالبان
کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکہ کے
منظورِ نظر تھے مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکہ کی نظر
میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔
جو افغان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔ 11 ستمبر 2001ء کے ورلڈ
ٹریڈ سنٹر کے حادثے کا
الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے
رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس
بہانے 7 اکتوبر، 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا
اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔
امریکہ
نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر
حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد
کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو
دباؤ میں رکھ کر امریکہ نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے
میں لے لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ
میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام
عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے ۔ 9 اکتوبر، 2004ء کو حامد کرزئی کو
افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ اس وقت افغانستان میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ افغانستان میں امریکی اور
اتحادی فوج تاحال موجود ہے جو افغانستان کی اصل حاکم ہے۔ بھارت کا اثرو رسوخ
افغانستان میں بہت زیادہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کے صوبے
بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کاروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔
13 اور 14مئی 2007ء کو افغانی و امریکی فوج اور پاکستانی افواج میں آپس میں پہلی
باقاعدہ جھڑپ ہوچکی ہے جس میں کچھ پاکستانی اور کچھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستانی علاقے میں متعدد بار میزائیل
پھینک چکا ہے جس سے سو سے زائد پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کاروائیاں بعینہ
اسی طرز پر ہوتی ہیں جیسے اسرائیل جنوبی لبنان میں کرتا ہے۔
افغانستان
کا جغرافیائی نقشہ
افغانستان
چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری
تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ
ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے
نام دریائے آمو ' دریائے کابل '
دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ
میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ
(پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔
افغانستان
کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر)
پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ
کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔
افغانستان
کے علاقے میں سونا ' چاندی '
کوئلہ ' تانبا ' کانسی '
کرومائیٹ ' زنک ' سلفر '
لوہا ' قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے بھی
وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو
سکے۔افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید
سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔
جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی
ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔
افغانستان
کی معیشت
افغانستان
دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش
اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور
اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان
کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی
معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع
بھی کم ہی ملے ہیں۔
افغانستان
میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی ' انھیں جنگ نے
مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت اور افیم و پوست
کی تجارت ہی ان کا بطور سلسلہ روزگار مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد اسمگلنگ
سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی
ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس
سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع
کی ہے مثلاً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا
کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔
افغانستان
کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور 2006ء
میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ
زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی
رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں
کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکہ ڈالر مہیا
کیے گئے ہیں۔
افغانستان
کئی بین الاقوامی اداروں کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک
اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع
ہونے کی امید ہے۔
افغانستان کی انتظامی تقسیم
افغانستان
میں صوبے کو ولایت کہتے ہیں مثلاً ولایت بدخشان۔ افغانستان کو کل چونتیس ولایات
میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔
بدخشاں
بادغیس
بغلان
بلخ
بامیان
دایکندی
فراہ
فاریاب
غزنی
غور
ہلمند
ہرات
جوزجان
کابل
قندھار
کاپیسا
خوست
کنڑ
قندوز
لغمان
لوگر
ننگرہار
نیمروز
نورستان
اروزگان
پکتیا
پکتیکا
پنجشیر
پروان
سمنگان
سرپل
تخار
وردک
زابل
افغانستان کے مشہور شہر
افغانستان
کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے 2006ء میں افغانستان کے
بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔
کابل
- 2,536,300
قندھار
- 450,300
ھرات
- 349,000
مزار
شریف - 300,600
قندوز
- 264,100
طالقان
- 196,400
پلِ
خمری - 180,800
جلال
آباد - 168,600
چاریکار
- 153,500
شبرغان
- 143,900
غزنی
- 141,000
سرِپل
- 136,000
افغانستان کی ثقافت
افغانی
ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ ایرانی ثقافت ' پشتون ثقافت
اور اسلام۔ اس میں اسلام کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک '
قبیلہ سے وفاداری ' مذہب '
اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور
موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔
افغانستان
ایک تاریخ رکھتا ہے جس کے نشان جابجا آثارِ قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بز کشی
ان کا قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن و
مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصاً قدیم فارسی شاعری ان کی زندگی اور خیالات کی تشکیل
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
افغانستان
کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے
کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر
ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ
عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔
اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب
اور حکیم گردانا جاتا ہے ' کا تعلق بلخ
سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور
تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان
کے صوبہ فاریاب سے تھا۔ پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین
عبدالرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔
افغانستان
کے کھانے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلاؤ '
خمیری روٹی اور تکے کباب شاید دنیا میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل
ہیں جو دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہیں۔ مذہب کو افغانستان میں بہت اہمیت حاصل ہے
اور ان کی چار اہم چھٹیاں عیدالفطر ' عیدالاضحیٰ '
عاشورہ اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اس کے
علاوہ افغانستان کا یومِ آزادی ( 19اگست) اور نوروز (21 مارچ) بھی چھٹیوں میں شامل
ہیں۔
افغانستان
میں نسلیں
افغانستان کے لوگ نسلاً پشتون ' تاجک '
ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکی ' بلوچی ' کھوار
زبان بولنے
والی قوم کھو اور دیگر لوگ بھی آباد ہیں۔ دیگر لوگوں میں نورستانی '
پشائی ' براھوی وغیرہ شامل ہیں۔
افغانستان
کے نسلی گروہوں کی آبادی
پشتون
42%
تاجک
27%
ہزارہ
9%
ازبک
9%
ایماق
4%
ترکمان
3%
بلوچ
2%
دیگر
(پاشایی ' نورستانی ' عرب '
براہوی ' پامیری ' گرجر وغیرہ) 4%
افغانستان
کی زبانیں
افغانستان
میں %42 لوگوں کی مادري زبان
پشتو اور %27 لوگوں کی مادري زبان فارسي ہے اور باقی %30 فیصد لوگ ازبک '
ترکمن ' نورستانی ' بلوچی وغیرہ
بولتے ہیں۔ نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو 4% کے قریب
لوگ بولتے ہیں۔
افغانستان
ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے
لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور
جنوب میں ہیں۔
افغانستان
میں مختلف مذاہب کا تناسب
افغانستان
کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ہندو
اور سکھ بھی ہیں جو کابل ' قندھار اور
جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment