پنجاب
سے لے کر مکران کے ساحل تک اور پنجاب سے لے کر گنگا کے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد
میں ہیں جبکہ پنجاب میں ان کی اکثریت ہے۔ گنگا جمنا کے دوآبے اور راجپوتانہ میں یہ
جاٹ کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔ جٹ اور جاٹ کے علاوہ جتک ' جدگال
اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے اور بلوچ
کہتے ہیں۔
شمالی
ہند میں جاٹ دوسری اقوام سے اور رجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے۔ سندھ کے سماٹ
قبائل کی اکثریت جاٹ النسل ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان
ہوچکی ہیں۔ پنجاب کی تقسیم سے پہلے پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ
مسلمان تھے۔ لیکن وسطی پنجاب میں اکثر جاٹ سکھ اور جنوبی پنجاب میں اکثر جاٹ ہندو
تھے۔
جاٹ
نسل
لی
بان کا کہنا ہے کہ جاٹ پنجاب و سندھ میں سب سے باوقت قوم ہے۔ ان میں شاز و نادر
خارجی میل سے ٹھوڑا بہت تغیر پیدا ہوا ہے۔ تاہم ان کا عام ڈھانچہ حسب ذیل ہے۔ قد
لمبا کاٹھی مظبوط چہرے سے ذہانت نمودار ' جلد کس قدر سیاہ ' ناک بڑی اور اونچی اور
بعض اوقات خم دار اور ان کی آنکھیں چھوٹی اور سیدھی ' گال کی ہڈیاں کم ابھری ہوئیں
ہیں ' بال سیاہ اور کثرت سے ڈاھاڑیاں چگی اور کم بالوں کی ' بلند قامت ' خوش نظر '
ان کی چال سیدھی اور شاندار۔ جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط
ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے آریا
ہیں۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انہیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا
ہے۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہوگئی ہے۔
اگرچہ
جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں۔ لیکن اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے۔
تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے ' وہ جاٹوں میں موجود ہے۔ مثلاً بعض ان میں
سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر ے صاف ہے ' جیسا کہ راجپوتوں کا۔ کورو کی ایک شاخ
جارٹیکا کے نام سے مشہور تھی اور پنجاب میں آباد تھی۔ یہ غالباً جٹوں کے اسلاف
تھے۔
جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسوی کے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔ جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں۔
جٹوں کے متعلق نظریات
لی
بان کا کہنا ہے کہ خطۂ پنجاب کے اصل باشندے تورانی الاصل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ یہ تورانی جاٹ آریوں کی چڑھائی کے وقت سارے ملک کے مالک تھے اور باآسانی آریوں
کے محکوم ہوگئے۔ آریا فاتحین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو درمیانی ذات
ویش یا تجارت پیشہ ذات میں ان کو شامل کردیا۔ برخلاف اس ملک کے اصل باشندوں کو
شودر بنا دیا۔ گویا جاٹوں کی رضامندی سے آریا اس ملک کے حاکم بن گئے۔ اس باہمی
رضامندی کا پتہ تخت نشینی کی رسم میں ملتا ہے۔ کیوں کہ بادشاہ تاج جاٹوں کے ہاتھوں
سے لیتا تھا۔
ویمرے کا کہنا ہے کہ جیتی نام ان منگولوں کا تھا ' جو منگولیا کی سرحد پر رہتے تھے۔ ان کی نسل کے جو لوگ ہیں وہ بروتی ہیں۔ وسط ایشیا میں اب ان منگولوں کو چیتے مغل (سرحدی مغل) کہتے ہیں۔ ترکی میں جیت سرحد کو اور منگول کو مغل کہتے ہیں۔
بی ایس ڈاہیا کا کہنا ہے کہ جٹ لفظ بذات خود بہادری کے عمل اور پیش قدمی کی علامت ہے۔ شمشیر زنی اور ہل لانے کے ماہر جاٹوں نے مشرق میں منگولیا اور چین سے لے کر مغرب میں اسپین اور انگلستان تک شمال میں سکنڈے نیویا اور نوڈ گروڈ سے لے کر جنوب میں پاک و ہند ' ایران اور مصر تک ' ایشیا اور یورپ کی سرزمین پر تیر و تبر سے اپنا نام رقم کیا۔ برصغیر ' ایران ' روس میں جٹ یا جاٹ اور ترکی و مصر میں جاٹ ' عرب ممالک میں زظ یا جظ ' منگولوں کی زبان میں جٹیہ ' سویڈن اور ڈنمارک میں گوٹ ' جرمنی اور دیگر زبانوں میں گوٹھ یا گوٹ ' ینی میں یوچی (جس کا تلفظ گٹی ہے) کہلاتے ہیں۔
جینی مصنف وردھمان شاکا اور جرٹ قبائل کا ذکر کرتا ہے۔ چندر گومن نے لکھا ہے کہ جاٹوں نے ہن قبائل کو شکست دی۔ یشودھرمن اور گپت فرمانروا جاٹ تھے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ہنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگرچہ ہن خود بھی جاٹ تھے۔
شاکا ' کشان ' ہن ' کیداری ' خیونی (چیونی) اور تکھر (تخار) جنہیں الگ الگ نسل شمار کیا جاتا ہے ' گو وسطی ایشائی میدانوں میں انہیں بعض اوقات ایک دوسرے کا پڑوسی ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی نسل جاٹ تھی مگر ان کے حکمران خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنا قبائلی نام اختیار کیا۔
وسط ایشیا کا علاقہ آریائی اقوام کا اصل وطن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی تمام روایات میں اس کے ساتھ تقدس وابستہ ہے۔ ویدی ادب سے لے کر تمام تحریروں میں ' شمال میں دیوتاؤں کی سرزمین ہے۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈو ایرانی ' ساکا اور یورپی سیھتی ایک ہی تھے۔ ہسٹری آف ورلڈ کے مطابق سیتھی وسط ایشا اور شمالی یورپ کے ان قبائل کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے پڑوسی نسلوں سے سرپیکار رہتے تھے۔ سیتھہ ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو جو بحیرہ اسود کے مشرق اور دریائے جیحوں و سیحون (دریائے آمو و سیر) کی وادی سے لے کر دریائے ڈینیوب اور دریائے ڈان تک پھیلا ہوا تھا۔ ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ مساگیٹے سیتھی قوم کی اولاد ہیں۔
پی
سائیکس گتی کہلانے والوں کا ذکر کرتا ہے۔ جنہوں نے 2600 م ق میں سمیر اور اسیریا
وغیرہ پر قبضہ جما لیا تھا۔ چینی ماخذ میں بیان کیا گیا ہے کہ وی قبائل کی تاریخ
2600 ق م تک پیچھے جاتی ہے۔ چین کے وی ' ایران کے داہی ' یونان کے دائے اور موجودہ
دور کے داہیا جاٹ ایک ہی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے جاٹ وہی لوگ ہیں جو ایران کی تاریخ
میں گتی اور چینیوں کے یوچی (جس کا چینی تلفظ گتی ہے) کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان
کا اصل وطن سرحدات چین سے لے کر بحیرہ اسود تک وسط ایشیا ہے۔ ہیروڈوٹس اور دیگر
یونانی مورخ انہیں گیتے یا مساگیتے کہتے ہیں۔ موخر الذکر نام انہی قبائل کا بڑا
عنصر ہے۔
ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل ' راٹھور ' پوار ' اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ قبائل اصل میں جاٹ ہیں ' جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیونکہ یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بناء پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انہیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔
جاٹوں کا کردار
جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے رسمی انداز میں باقائدہ ہندومت قبول نہیں کیا۔ یہی پس منظر تھا جسکی وجہ سے برہمن اور ان کی تقلید میں اور دوسری ذاتیں جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٖ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انہیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں۔ جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ ' گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاتوں اور راجپوتوں میں مشترک قبائلی نام ہیں۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر ' راجستھان ' گجرات ' سندھ اور پنجاب میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے تو وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسئلے کا اصل نقطہ ہے۔ ایک راجپوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط ' غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارا نہ تھا۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے باوجود جاٹ کہلائے۔
دریائے
سندھ کے کنارے آباد جاٹ نے محمود غزنوی کو پنجاب پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا۔
چنانچہ محمود غزنوی نے ایک حملہ خاص طور پر جاٹ کے خاتمہ کے لئے کیا اور چھ سو کی
تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے۔ ان
کشتیوں کو دریائے سندھ میں ڈال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کئے اور باقی
ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا۔ جاٹوں کو جب معلوم ہوا
تو انہوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کر کوئی چار ہزار یا آٹھ ہزار کشتیوں
پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ باوجود کثرت میں ہونے کے کثیر
تعداد میں جاٹ مارے گئے۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو
گرفتار کرلیا۔
اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا، جاٹوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کئے۔ یہاں تک انہوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لئے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں بھرپور حملے کیے لیکن احمد شاہ ابدالی نے افغانستان سے آکر جاٹوں پر حملہ کردیا۔ بعد میں پنجابی جاٹ رنجیت سنگھ ' پنجاب میں ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ریاست برطانیہ کے پنجاب پر قبضہ تک قائم رہی۔
سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی۔ ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہوگئی اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے۔ انہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ سکھوں کی اکثریت جاٹوں پر مشتمل تھی اور جاٹوں کا عمل دخل بہت تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف ایک تحریک چلی ' جس کا مشہور سلوگن "پگڑی سنبھال جٹا" تھا۔اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا تھا۔
جاٹوں کے خصائص
جاٹ لین دین میں سادہ لوح ہوتے ہیں۔ بھینسوں اور گایوں کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا پیشہ زیادہ تر کاشتکاری ہے۔ وہ نہ صرف دلیر واقع ہوئے ہیں بلکہ اچھے سپاہی واقع ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم کے مقابلے میں انہوں نے مزاحمت کی تو محمد بن قاسم نے ان کی بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا اور انہیں حجاج بن یوسف کے پاس بھجوا دیا۔ ہندو جاٹوں میں ایک سے زائد شادی کا رواج تھا۔ چچ نے جٹوں پر اچھوتوں کی طرح پابندیاں عاعد کیں تھیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ جاٹ سندھ کے قدیم باشندے تھے۔ چچ نامہ میں ہے کہ چچ نے لوہانہ کے جٹوں سے جو شرائط منوائیں ان میں مصنوعی تلوار کے علاوہ کسی قسم کا ہتھیار نہیں باندھیں گے۔ قیمتی کپڑے اور مخمل نہیں پہنیں گے۔ گھوڑے پر بغیر زین کے بیٹھیں گے۔ ننگے سر اور ننگے پیر رہیں گے۔ گھر سے باہر نکلتے وقت کتے ساتھ رکھیں گے۔ گورنر کے مطبخ کے لئے لکڑی کے علاوہ رہبری اور جاسوسی کے کام انجام دیں گے۔
جاٹوں کے مذہب
جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں۔ مسلمان جاٹ کی اکثریت دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتی ہے۔ سکھ جاٹ کی اکثریت پنجاب میں اور ہندو جاٹ کی اکثریت راجپوتانہ میں رہتی ہے۔
جاٹ قبیلہ کی ذاتیں
آنتل ' آریہ ' ابر ' ایلاوت ' اندار ' ایساکھ ' اتوال ' عطری ' اولکھ ' اونکھ ' اوہلان ' اوجھلان ' اوجلہ ' اتار ' اوہلان ' اوڈھران
ببر
' بگداوت ' بجاد ' باجوہ ' بل ' بلہن ' بلہار ' بان ' بینس/ ونیس ' بسی ' باٹھ '
بلاری ' بنہوال ' بھنگال/ بھگو ' بھنڈر ' بھلی ' بیلا ' بسرا ' بھیڈی ' بھوپارائے
' بھلر ' بھڑنگ ' بسلا ' برار ' بدھوار ' بورا ' بھمبو
پاہل ' لاول ' پنکھال ' پائے سر ' پنیچ ' پنوں ' پنیگ ' پریہار ' پرودا ' پھور ' پھاروے ' پھوگٹ ' پھلکا ' پیرو ' پوتالیا ' پونیا ' پنگال ' پلکھا ' پرادا ' پوتل/پوتلیا
تنوار ' تور ' تھنڈ
ٹکھر
' ٹاہلان ' ٹنگ ' ٹک ' ٹاٹڑان ' ٹبواتھیا ' ٹھاکران ' ٹوانہ ' ٹسارٹومر
جکھد ' جگلین ' جلوٹا ' جنجوعہ ' جہل ' جنوار ' جٹاسرا ' جڑانہ ' جھاجھریا ' جوئیہ ' جون/ ہون ' جوڑا ' جاکھڈ
چاہل ' چھٹہ ' چوہان/چوہان ' چبک ' چیمہ ' چھلڑ ' چھکارا ' چھونکر ' چھینا ' چمنی ' چدھڑ
دباس/دواس ' داگر/ ڈاگر ' دراد ' دلال ' دوہان ' دھارن ' دھامی/دھاما ' دھنڈ وال ' دھل ' دھنویا ' دیول
ڈالتا ' ڈانگی ' ڈاہیا ' ڈسوالاس ' ڈھا/ ڈہایا ' ڈھیل/ڈھل ' ڈھالیوال ' ڈھاکا ' دھنکھڈ ' ڈھانچ ' ڈھانڈا ' ڈھلون ' ڈھنڈسا ' ڈھونچک
رائے ' رانا ' رانجھا ' راٹھی ' راٹھول ' راٹھور ' رندھاوا ' راپادیا ' راوت ' ریڈھو ' ریار ' راج ' روہیل/روہیلہ ' راسٹری
سانولا ' سہوتا ' سہروت ' سلار ' سلکان ' سامل ' سمرا ' سہن پال ' سنگا ' سنگدا ' سنگوان ' سنسوار ' سندھو ' سپرا ' سرن ' سروہا/ سروہی ' سراٹھ ' ساسیسیکھون ' سیوچ ' سیوکند ' سیوران ' شاہی ' شیر ' سویاسنگروت ' سدھو ' کاوار ' سوہل ' سولگی ' سولنگی ' سوہاک ' سیال
کھنگس ' کادیان ' کجلا ' کاک ' کاکڑاں/ کاکڑ ' کاٹھیا ' کلان ' کاہلون ' کلکل ' کانگ رائے 'کھرل ' کٹاری ' کشوان ' کھر ' کھیر ' کھرپ/ کھرب ' کھتری ' کھٹکل ' کھوکھر ' کلیر ' کوہاد ' کلار ' کوندو ' کنتل ' کٹاریا/کٹار
گالان ' گتھوال ' گورایہ ' گزوا ' گھمن ' گور/ گوریا ' گریوال ' گل ' گلیا ' گوہیل ' گمر ' گرلات ' گوندل ' گسر ' گوپی رائے ' گکلن ' گزوا ' گوھا
ہالا ' ہنس ' ہیر ' ہدا ' ہینگا
لالی
' لکھن پال ' لامبا ' لاتھر ' لتھ وال ' لوچب ' لوہان ' لوہاریا ' لنگڑیال
مچھر/ ماتھر ' مدیرنا ' مدھان ' ماہل ' ملک ' مل ' ملھی ' منکا/ مان ' منگٹ ' مند/منڈ ' مندر ' ماولا ' موہلا ' منہاس ' مردھا ' مٹھا ' موکھر ' مور ' مانگٹ ' مدرا ' مدیرنا
ناپال ' نلوہ ' ناندل ' نین ' نیپال ' نروال ' نوہار ' ناہر ' نجار ' نونیا/ نون
ورک ' ورائچ ' وٹ دھن ' وَلہ
No comments:
Post a Comment