پاکستان
سے 1971 میں بنگال کے الگ ھونے تک پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ مھاجر لیاقت علی خان سے
لیکر ' مھاجر مودودی و مھاجر نورانی' بنگالی مجیب و بنگالی بھاشانی ' سندھی بھٹو و
سندھی جی۔ایم سید' پٹھان غفار خان ' ولی خان و پٹھان قیوم خان' بلوچ خیر بخش مری'
بلوچ اکبر بگٹی' بروھی عطاء اللہ مینگل کے پاس رھی. ایک بھی قومی سطح کا پنجابی
سیاسی لیڈر نہیں تھا. ملٹری لیڈرشپ پٹھان ایوب خان ' پٹھان یحی خان' بلوچستان کے
ھزارھ موسی خان کے ھاتھ میں رھی. ایک بھی پنجابی فوج کا سربراہ نہیں بنا تھا.
آج
2017 میں بنگال تو ھے نہیں. بلوچ لیڈرشپ بلوچ خیر بخش
مری' بلوچ اکبر بگٹی' بروھی عطاء اللہ مینگل کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے
' بلکہ سکڑ کر بلوچستان کے اندر تک محدود اور قبائل کی حد تک اثر انداز ھونے والی
رہ گئی ھے. پختون لیڈرشپ بھی پٹھان غفار خان ' ولی خان و پٹھان قیوم خان کے معیار
کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر خیبر پختونخواہ کے اندر تک محدود اور
آپس میں الجھی ھوئی ھے. سندھی لیڈرشپ بھی سندھی ذالفقار و بے نظیر بھٹو و سندھی
جی۔ایم سید کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر دیہی سندھ کے اندر
تک محدود اور آپس میں الجھی ھوئی ھے.
سندھی اس وقت سیاسی طور پر صوبائی سطح کی سیاسی لیڈرشپ سے بھی محروم ھیں. مستقبل میں سندھی سیاسی لیڈرشپ کا معیار مزید گر کر ضلعوں کی سطح پر آتا نظر آرھا ھے. بلوچوں اور پختونوں کی طرح سندھیوں کی سیاسی لیڈرشپ بھی مختلف علاقوں اور ضلعوں کی حد تک محدود اور قبائل میں منتشر نظر آئے گی.
مھاجر
اس وقت الطاف حسین کی قیادت میں متحد اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متحرک ھیں.
اس لحاظ سے مھاجر کی سیاسی پوزیشن سندھی' پٹھان اور بلوچ سے زیادھ بھتر ھے لیکن
الطاف حسین کا پاکستان آنا ممکن نہیں. مھاجر کے پاس مشرف ' الطاف حسین کا متبادل
لیڈر تھا لیکن مقدمات میں پھنسنے کے بعد اب مشرف کی گلوخلاصی ممکن نہیں. مستقبل
میں مھاجر بھی سیاسی قیادت کے اس ھی بحران میں مبتلا ھوکر منتشر ھو جائیں گے جس
طرح سے بلوچ' پٹھان اور سندھی قومی سطح کی لیڈرشپ سے محروم ھونے کے بعد ' سیاسی
قیادت کے بحران کی وجہ سے منتشر ھیں.
پنجاب اس وقت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی قیادت میں نہ صرف خود کفیل بلکہ مضبوط و مستحکم ھے. نواز شریف کی شکل میں قومی سطح کی لیڈرشپ موجود ھے جسکا ھم پلہ سیاستدان بلوچ ' پٹھان ' مھاجر اور سندھی کے پاس نہیں ھے۔ پنجاب میں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی جڑیں انتہائی مظنوط ھیں جو اب پھیل کر پختونخواہ کے ھزارھ بیلٹ اور بلوچستان پر بھی اپنا اثر بڑھا رھی ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ کی دوسری بڑی آبادی اور شہری سندھ کی بھی دوسری بڑی آبادی ' پنجابی کی سپورٹ ویسے ھی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ھے۔
قصہ مختصر! پاکستان میں سیاسی اور ملٹری لیڈر شپ اب پنجاب اور پنجابی کے پاس ھے۔ ملک میں فوجی مداخلت کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ پنجاب کی سیاسی قیادت نہ تو فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کرنے دے گی اور نہ ھی جمہوری عمل کی بساط لپیٹنے دے گی اور نہ ھی پنجابی ملٹری لیڈرشپ اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی امور میں مداخلت کرنا پسند کرے گی۔
بحرحال ! جب حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر اور ان اداروں کو پنجابی ادارے کہہ کہہ کر یا دوسرے شوشے چھوڑ چھوڑ کر پنجابیوں کو سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں یا مھاجروں کی طرف سے گالیاں دی جاتی ھیں اور سرائیکی سازش کے ذریعے پنجاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں کی جاتی ھیں تو بات سیاسی مفاھمت کے بجائے محاذآرائی کی طرف نکل جاتی ھے. اس لیے سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں اور مھاجروں کو طے کرنا ھوگا کہ وہ پنجاب اور پنجابیوں کے ساتھ سیاسی مفاھمت کرنا چاھتے ھیں یا محاذآرائی؟
سندھی ' مھاجر اور پٹھان کو قومی اور بین الاقوامی معاملات سے فارغ کرکے صرف مقامی اور صوبائی معاملات اور سیاست تک محدود کردیا گیا تو سندھی ' مھاجر اور پٹھان آرام و سکون کے ساتھ اپنی اوقات میں رھیں گے. پھر یہ سیاست کریں گے سازشیں نہیں. بلیک میل کرنے اور عملی کام کر کے دکھانے میں زمین آسمان کا فرق ھے. اب سندھی سندھودیش ' مھاجر جناح پور ' بلوچ آزاد بلوچستان اور پٹھان پختونستان والے نعرہ کو عملی شکل دیں تاکہ ان کو دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ چلے.
پاکستان میں سندھیوں کی آبادی صرف 12٪ ' مھاجروں کی 8٪ ' پٹھانوں کی 8٪ اور بلوچوں کی 4٪ ھے لیکن اس کے باوجود 60٪ پنجابیوں نے پاکستان کے وسع تر مفاد کی خاطر اور پاکستان کی چھوٹی قوموں کو شیر و شکر کرکے پاکستانی قوم بننے کا موقع دینے کے لیے کبھی مھاجروں ' کبھی پٹھانوں اور کبھی سندھیوں کو 60٪ پنجابیوں پر حکومت کرنے کا بار بار موقع دیا ' جس کی وجہ سے مھاجروں ' پٹھانوں ' بلوچوں اور خاص طور پر سندھیوں کی عادت خراب ھوگئی اور دل بار بار مرکز پر حکومت کرنے کو مچلنے لگا لیکن اب مستقبل میں سندھی ' مھاجر ' بلوچ اور پٹھان کے پاس مقامی اور صوبائی معاملات کی حد تک ھی سیاست اور حکومت کرنے کی گنجائش ھے. قومی اور بین الاقوامی معاملات اور سیاست کو بھتر ھے کہ اب یہ سندھی ' بلوچ ' مھاجر اور پٹھان ایک ماضی کا سہانہ خواب سمجھ کر صرف تذکرے ھی کیا کریں.
در حقیقت ' سندھی ' مھاجر ' بلوچ اور پٹھان کو معلوم ھونا چاھیئے کہ خیبرپختونخواھ کا علاقہ افغان قوم اور پنجابی قوم کے درمیان بفر زون ھے۔ جس میں مختلف قبائل رھائش پذیر ھیں۔ ان قبائل کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا ھندکو قبائل کے افراد خیبرپختونخواھ کے اصل باشندے ھیں۔
بلوچستان کا علاقہ ایرانی قوم اور پنجابی قوم کے درمیان بفر زون ھے۔ جس میں مختلف قبائل رھائش پذیر ھیں۔ ان قبائل کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا براھوی قبائل کے افراد بلوچستان کے اصل باشندے ھیں۔
سندھ کا علاقہ ایک ایسی کالونی ھے۔ جس میں سماٹ سندھیوں کے علاوھ بلوچ' سید ' پنجابی ' پٹھان ' راجستھانی ' گجراتی ' یوپی والے ' سی پی والے ' بہاری ' گلگتی ' کشمیری ' سواتی وغیرھ بے شمار برادریاں آباد ھیں۔ اس لیے ان برادریوں کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا سماٹ قبائل کے افراد سندھ کے اصل باشندے ھیں۔
پاکستان میں قوم صرف پنجابی ھی ھے اور پنجابی قوم کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 60٪ ھے۔
No comments:
Post a Comment