دنیا کے ھر ملک اور علاقے میں ھر رنگ ' نسل '
ذات ' برادری ' زبان ' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں کی اکثریت سیاسی امور کے لحاظ
سے بے حس ھی ھوتی ھے۔ صرف چند درجن افراد ھوتے ھیں جو سیاسی خیالات رکھنے والے ھوتے
ھیں اور چند سو افرد ھوتے ھیں جو سیاسی خیالات تو نہیں رکھتے ھوتے لیکن سیاسی
خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے ھوتے ھیں جبکہ چند ھزار افرد ھوتے ھیں جو
نہ سیاسی خیالات رکھنے والے اور نہ سیاسی خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے
ھوتے ھیں ' صرف خیالات کو سن کر جو سیاسی خیال انکے مزاج یا مفاد کے مطابق ھو ' اس
خیال کی بنیاد پر عوام کو سیاسی طور پر متحرک اور منظم کرنا شروع کر دیتے ھیں اور
جو خیالات انکے مزاج یا مفاد سے متصادم ھوں ' اس خیال کی مخالفت کی بنیاد پر بھی
عوام کو سیاسی طور پر متحرک اور منظم کرنا شروع کر دیتے ھیں ' جس سے لاکھوں کی
تعداد میں عوام سیاسی طور پر متحرک رھتی ھے لیکن اسکے باوجود کروڑوں کی تعداد میں
عوام سیاسی سرگرمیوں سے گریزاں ھی رھتی ھے۔ ان لوگوں کو سیاسی طور پر بے حس افراد
کہہ دیا جاتا ھے۔
ھر دور میں مسئلہ عوام کا نہیں بلکہ اشرافیہ
کا ھی ھوتا ھے لیکن دنیا کے ھر ملک اور علاقے میں اشرافیہ اپنے مفادات کے حصول اور
اپنی بالادستی کے لیے رنگ ' نسل ' زبان ' ذات ' برادری ' قوم ' مذھب ' فرقے کو
بنیاد بنا کر اپنے ھی عوام کو استعمال کرتی ھے اور عوام ' کم علمی ' جذبات یا
مفادات کی وجہ سے اپنی ھی اشرافیہ کے ھاتھوں استعمال ھوتی رھتی ھے۔ ورنہ حقیت میں
عوام ' عوام ھی ھوتی ھے اور عام طور پر رنگ ' نسل ' زبان ' ذات ' برادری ' قوم '
مذھب ' فرقے سے بالاتر ھی رھتی ھے۔ اس لیے کسی بھی رنگ ' نسل ' زبان ' ذات '
برادری ' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں کے سیاسی عروج یا سیاسی زوال کا انحصار انکے
چند سو سیاسی خیالات رکھنے والے ' چند ھزار سیاسی خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت
رکھنے والے اور چند لاکھ سیاسی طور پر متحرک اور منظم افراد پر ھی ھوتا ھے۔
کسی رنگ ' نسل
' ذات ' برادری ' زبان ' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں میں چند سو سیاسی خیالات
رکھنے والے ' چند ھزار سیاسی خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے اور چند لاکھ
سیاسی طور پر متحرک اور منظم افراد ھوں تو پھر اس رنگ ' نسل ' زبان ' ذات ' برادری
' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں کو سیاسی طور پر متحرک کہا جاتا ھے۔ یہ الگ موضوع ھے
کہ وہ مثبت سیاسی سرگرمیوں میں متحرک رھتے ھیں یا منفی سیاسی سرگرمیوں میں متحرک رھتے
ھیں۔ کسی رنگ '
نسل ' ذات ' برادری ' زبان ' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں میں چند سو سیاسی خیالات
رکھنے والے ' چند ھزار سیاسی خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے اور چند لاکھ
سیاسی طور پر متحرک اور منظم افراد نہ ھوں تو پھر اس رنگ ' نسل ' زبان ' ذات '
برادری ' قوم ' مذھب ' فرقے کے لوگوں کو سیاسی طور پر مکمل بے حس کہا جاتا ھے۔ بے
حس ھونے کی وجہ سے ھی وہ لوگ سیاسی زوال کا شکار ھوتے ھیں۔ سیاسی زوال کا شکار
ھونے کی وجہ سے غیروں کے سماجی ' معاشی اور انتظامی تسلط کا شکار رھتے ھیں۔ مکمل بے
حس ھونے کی وجہ سے ھی وہ لوگ نہ مثبت سیاسی سرگرمیوں کے لیے متحرک ھوتے ھیں اور نہ
منفی سیاسی سرگرمیوں کے لیے متحرک ھوتے ھیں۔ بس اپنے گھریلو اور کاروباری امور میں
مصروف رھتے ھیں۔
No comments:
Post a Comment