Saturday, 11 November 2017

یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی 82 سالہ سیاسی عیاری و مکاری کا جائزہ

برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنی سماجی برتری اور سیاسی بالادستی کے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔ اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 350 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ  کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم حلقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔

سال 1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال ' پنجاب ' سندھ ' سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے مسلم لیگ کے کسی دوسرے رھنما نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کی قراداد پیش نہ کی۔ کیونکہ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر شکست کی تازہ یادوں کی وجہ سے مسلم اکثریت کے صوبوں کی قیادت سے ایسی مانگ کے لئے حمایت کا یقین نہیں تھا۔ اس کے بجائے مسلم اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو اپنایا۔

برطانوی ھندوستان میں 1946ء کے انتخابات کے فوراً بعد برطانیہ کی حکومت نے برطانوی ھندوستان میں اقتدار منتقل کرنے کے لیے راہ ھموار کرنے کی غرض سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن برطانوی ھندوستان بھیجا۔ یہ مشن "کیبنٹ مشن" یا "وزارتی مشن" کے نام سے یاد کیا جاتا ھے۔ "کیبنٹ مشن" نے 16 مئی 1946ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے برطانوی ھندوستان کو تقسیم سے روکنا تھا۔ کیبنٹ مشن پلان کے اھم نکات تھے؛

1۔ برطانوی ھند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ھند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ' دفاع اور مواصلات کے شعبے ھوں گے۔

2۔ برطانوی ھند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باھمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ھر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ھونے کا امکان ھو ' کو فیصلہ کرنے کے لیے ھر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔

3۔ پلان ھذا کے مطابق برطانوی ھند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔

گروپ الف میں ھندو اکثریتی صوبے یو پی ' سی پی ‘ بہار ‘اُڑیسہ ‘ بمبئی ‘مدراس شامل کیے گئے۔
گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبے پنجاب ‘سرحد’ اورسندھ شامل کیے گئے۔
گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم اکثریتی صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔

4۔ خارجہ امور ‘ دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔

5۔ کل ھند یونین کے آئین اور ھر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ھوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاھے تو ھر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواھش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ھوگا۔ شق ھذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاھیں توکل برطانوی ھندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ھیں۔

6۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ھر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ھند کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے 290 نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر  78 مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں۔ اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو 93 نشستیں دی گئیں۔

کانگرس  نے 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان منظور کر لیا جبکہ مسلم لیگ نے اپنے موقف کو منوانے کے لیے 29 جولائی 1946ء کو "راست اقدام" (ڈائریکٹ ایکشن ڈے) کا فیصلہ کیا۔ پورے برطانوی ھندوستان کی سطح پر ھڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔ اس اعلان کے بعد 16 اگست 1946 کو برطانوی ھندوستان کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی صوبہ بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور گرد و نواح میں خوفناک فساد پھوٹ پڑے۔ ھندو بنگالیوں اور مسلمان بنگالیوں نے ایک دوسرے کو جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا اور لگ بھگ تین ھزار ھلاکتیں ھوئیں۔ جبکہ برطانوی ھندوستان کے دوسرے بڑے مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب کے شھر راولپنڈی اور گرد و نواح میں پانچ ھزار سکھ پنجابی قتل کردیے گئے جسکے ردِ عمل میں پنجاب ھی کے شھر امرتسر اور گرد و نواح میں مسلمان پنجابیوں کو جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا گیا۔ برطانوی ھندوستان میں ھندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ھوگیا اور فسادات میں کلکتہ ' راولپنڈی اور امرتسر کے علاوہ بمبئی ‘ احمد آباد ’ نواں کلی ‘ بہار اور دھلی  سب سے زیادہ متاثر ھوئے۔

وائسرائے ھند لارڈ ویول  نے لندن سے منظوری حاصل کرنے  کے بعد 24 اگست کو پنڈت جواھر لال نہرو اور ان کے ساتھیوں  کے عبوری حکومت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ کانگریس  نے 2 ستمبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ھونے کا حلف اٹھایا۔ اسکے بعد برطانوی ھندوستان میں ھندو مسلم فسادات کے سلسلے کو روکنے کے لیے وائسرائے ھند لارڈ ویول ‘ قائداعظم اور پنڈت نہرو کے درمیان بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ھوا۔ اسکے نتیجہ میں آل انڈیا مسلم لیگ نے 16 اکتوبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ھونے کا اعلان کر دیا۔25  اکتوبر کو مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ھوگئی۔ عبوری حکومت میں 6 کانگریس کی وزارتیں ‘ 5 مسلم لیگ کی وزارتیں اور 3 اقلیتی وزارتیں شامل تھیں۔ اس عبوری حکومت کے اندر بہت سے معاملات پر اس قدر بے اعتمادی اور اختلاف تھے کہ یہ عبوری حکومت بری طرح ناکام ھوگئی-

20  فروری 1947ءکو برطانوی وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے اعلان کیا کہ جون 1948ء تک اقتدار برصغیر کے نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ برطانوی حکومت نے وائسرائے ھند لارڈ ویول کو واپس برطانیہ بلا لیا اور اسکی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو نیا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ وہ 22 مارچ 1947ء کو برطانوی ھندوستان پہنچ گئے۔ 24 مارچ 1947ء کو  لارڈ ماونٹ بیٹن  نےبرطانوی ھندوستان کے انتیسویں اور آخری گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد لارڈ ماونٹ بیٹن نے برطانوی ھندوستان کی بااثر اور اھم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے سلسلے کا آغاز کیا۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر وائسرائے کی برطانوی ھندوستان کےراھنماؤں سے بات چیت پر تبصرہ کرتے ھوئے لندن سے شائع ھونے والے اخبار سنڈے ابزرور نے لکھا؛ ’’ ان ملاقاتوں سے یقیناً وائسرائے اس نتیجے پر پہنچے ھوںگے کہ تقسیم ھی انتشار کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ھے۔‘‘ برطانوی ھندوستان کا وائسرائے بننے کے بعد لارڈ ماونٹ بیٹن یہ بات اچھی طرح جان چکا تھا کہ "راست اقدام" (ڈائریکٹ ایکشن ڈے) کے نتیجے میں شروع ھونے والے ھندو مسلم فسادات کی وجہ سے برصغیر کی ھندو اور مسلم کی بنیاد پر تقسیم اب ناگزیر ھوچکی ھے-

آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کا موقف جاننے کے بعد لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی طرف سے ایک منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار کر لیا۔ برطانوی ھندوستان میں دو ریاستوں کا قیام اس منصوبے کا سب سے اھم ترین مقصد تھا۔ برطانوی کابینہ کے ساتھ مزید صلاح مشورہ کرنے اور اپنے منصوبے کی حتمی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے لارڈ ماونٹ بیٹن 18 مئی 1947ء کو لندن کے لیے روانہ ھوئے۔ دس دن تک برطانوی کابینہ کے اجلاسوں میں مونٹ بیٹن پلان کے ھر پہلو کا مکمل جائزہ لیا گیا۔ 28 مئی 1947ء کو برطانوی ھندوستان کے مسئلے پر وائسرائے ھند کے پلان کو آخری شکل دی گئی۔ برطانوی حکومت نے لارڈ ماونٹ بیٹن کو مزید اختیارات دے کرکے ھندوستان کے لیے روانہ کیا۔ وہ 30 مئی 1947ء کو برطانوی ھندوستان پہنچے اور پھر 3 جون 1947 کو اپنے نئے منصوبے کا اعلان کرتے ھوئے کہا کہ؛
1۔ برصغیر کو دو علیحدہ علیحدہ مملکتوں میں تقسیم کردیا جائے گا-
2۔ ان مملکتوں کو ابتداء میں نو آبادیاتی حیثیت حاصل ھوگی-
3۔ پنجاب اور بنگال کو دو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا اور اس کے لئے دو غیر جانبدار حد بندی کمیشن قائم کئے جائیں گے-
4۔ سرحد اور سلہٹ میں عوامی آراء لینے کے لئے استصواب کروایا جائے گا-
5۔ سندھ اور آسام کی صوبائی اسمبلیاں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گی کہ وہ کس کے ساتھ رھنا چاھتے ھیں-
6۔ ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی آزاد مملکت کا حصہ بن سکتی ھیں-

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے قبول کرلیا- اس طرح 15 اگست 1947ء کو سندھ ' بلوچستان اور صوبہ سرحد پر مشتمل پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر وجود میں آیا اور 17 اگست 1947 کو  پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرکے پاکستان اور بھارت میں شامل کردیا گیا۔

پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی ' لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔ پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا تھا ' جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر ' پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے لیکن پاکستان کے قائم ھونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی ھی عوام سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا حکمرانی کا حق چھینا گیا ' جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی متخب حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گو رنر ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی متخب حکومت کو برطرف کر دیا اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ھوئے ' بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا- یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔

لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروںکے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

25 جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیےانتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔

اب یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے اور گذشتہ 30 سال سے ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

پاکستان بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے اور پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔

پاکستان اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد امریکہ ' برطانیہ ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔

دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کئے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔

پاکستان بننے کے بعد ھمارے پلے یہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پڑے ' جنھوں نے پاکستان بنتے ھی پاکستان کی اصل قوموں بنگالی’ پنجابی’ سندھی’ پٹھان’ بلوچ کی زمین پر قبضہ کرکے ان پر حکومت کرنا شروع کردی. ایک یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو وزیراعظم بنایا دوسرے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو حکومتی پارٹی کا صدر بنایا ' جھوٹے کلیموں پر یوپی ' سی پی سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر بلا کرجائیدادیں ان میں بانٹیں ' خاص کوٹہ برائے مھاجرین مخصوص کرکے جعلی ڈگریوں کے ذریعے بڑی بڑی سرکاری نوکریوں پر یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر بھرتی کیے ' بنگالی' پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبانوں کو قومی زبان بنانے کے بجائے اپنی زبان اردو کو مسلمانوں کی زبان ھونے کا چکر چلا کر قومی زبان بنا کر بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو اردو بولنے پر مجبور کیا جس کو ماننے سے انکار کرکے ' بڑی قوم ھونے اور ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے مرکز کراچی سے دور ھونے کی وجہ سے بنگالی قوم نے آزادی حاصل کرلی لیکن پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اب تک ان میں پھسے ھوئے ھیں۔

بین الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر سازشیں کرنا اور بین الاقوامی امور میں دلالی کرنا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھوندوستانی مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شھری علاقوں’ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں ' جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھائے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں اوراس کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔ 

 چونکہ یہ یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سازشی اور شرارتی ذھن رکھتے ھیں اس لیے پاکستان کے قیام کے وقت سے لیکر اب تک ان کی عادت یہی چلی آرھی ھے کہ پنجابی کے پاس سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ھندوّں کے ایجنٹ ' اسلام کے مخالف اور پاکستان کے دشمن ھونے کا رونا روتے رھتے ھیں اور سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے پاس پنجابیوں کو آمر ' غاصب اور جمھوریت کا دشمن ثابت کرنے کے لیے الٹے سلٹے قصے ' کہانیاں بنا بنا کر شور مچاتے رھتے ھیں- پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے درمیان بدگمانی پیدا کرتے رھنا انکا محبوب مشغلہ ھے۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستان فرسٹ" تو اس سے مراد صرف "کراچی " ھوتا ھے۔ پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے علاقے پنجاب ' دیہی سندھ ' کے پی کے ' بلوچستان نہیں ھوتے۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "کراچی والے" تو اس سے مراد صرف "کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر" ھوتا ھے۔ نہ کہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ "پاکستانیت کو فروغ دیا جائے" تو اس سے مراد "اردو زبان ' یوپی ' سی پی کی تہذیب اور گنگا جمنا کی ثقافت" ھوتا ھے۔ نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی۔ جس سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے تک یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے خود کو ھندوستانی کہلواتے تھے جبکہ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر مھاجر بن جاتے تھے لیکن سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں سے ملتے تو خود کو نان سندھی کہلواتے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر مھاجر بن جاتے کے بعد سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملاکر مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد بنایا ھوا تھا۔

مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد کے پلیٹ فارم سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے نہ صرف گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رھے اور سندھیوں سے سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں نان سندھی کے نام پر گجراتیوں ' راجستھانیوں اور سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کا حصہ لینے کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں مستحکم کرتے رھے۔ اردو زبان کی بالا دستی قائم رکھتے رھے جبکہ گجراتیوں اور راجستھانیوں کے علاوہ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو نان سندھی قرار دیکر سندھوں کے ساتھ محازآرائی پر اکساتے رھے۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کو تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے چنگل اور نان سندھی کی شناخت سے نجات مل گئی لیکن گجراتی اور راجستھانی ابھی تک مھاجر کی شناخت کے نام پر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا سندھ کی سیاست ' حکومت اور سرکاری نوکریوں میں استحکام قائم رکھنے ' اردو زبان کی بالا دستی قائم رکھنے اور کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے یا کم سے کم کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے لیے استعمال ھو رھے ھیں۔

کراچی کی آبادی 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں ' 15٪ پنجابی بولنے والوں ' 15٪ پشتو بولنے والوں ' 10٪ سندھی بولنے والوں ' 5٪ بلوچی بولنے والوں ' 10٪ گجراتی بولنے والوں ' 5٪ راجستھانی بولنے والوں اور 15٪ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' سرائیکی سمیت دیگر زبانیں بولنے  والوں پر مشتمل ھے۔ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 60٪ ھے۔ گجراتیوں اور راجستھانیوں کی آبادی 15٪ ھے۔ گو کہ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 75٪ ھے ' جو کہ نان اردو اسپیکنگ ھیں لیکن ان 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے کراچی کے 15٪ نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو مھاجر قرار دے کر کراچی میں اپنی آبادی 25٪ سے بڑھاکر 40٪ کر رکھی ھے جبکہ کراچی کی آبادی کے 60٪ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' سرائیکی سمیت دیگر زبانیں بولنے  والوں کے متحد نہ ھونے کا فائدہ اٹھا کر کراچی پر اپنا کنٹرول قائم کیا ھوا ھے۔

پاکستان کی 60 % آبادی پنجابی ھے اور 12 % سندھی ھے۔ اس لیے پاکستان کی سطح پر پنجابی اور سندھ کی سطح پر سندھی کو جمہوریت کا فائدہ ھے۔ لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان میں صرف 4 % ھیں۔ اس لیے جمہوری نطام اور لسانی ماحول میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ھوکر پاکستان پر حکمرانی کرنے کا امکان نہیں رھتا۔  بلکہلیاقت علی خان اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اراکین کے لیے انتخابی حلقے بنانے اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے کارکن فراھم کرنے  کے لیے بھی پاکستان کے پہلے نامزد وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دور سے ھی یوپی ' سی پی سے مسلمانوں کو لاکر کراچی ' حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شھروں میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کرنا پڑا تھا۔ یوپی ' سی پی سے لاکر کراچی ' حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شھروں میں آباد کیے جانے والے آج سندھ کے لیے تباھی اورسندھیوں کے لیے بربادی کا سبب بنے ھوئے ھیں۔ 

پنجاب پر انگریز کے قبضہ کے وقت انگریز کی فوج کے ساتھ شامل ھوکر یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی  1849 میں پنجاب میں داخل ھونا شروع ھوئے اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں پر قابض ھوگئے۔ اس لیے پنجاب میں ' خاص طور پر پنجاب کے شھروں لاھور اور راولپنڈی میں تو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' جن کو پنجاب میں پنجابی مٹروا اور بھیا کہتے ھیں ' 1849 سے آباد ھوتے آئے ھیں۔ جو آج پنجاب کے لیے تباھی اورپنجابیوں کے لیے بربادی کا سبب بنے ھوئے ھیں اور انہوں نے پنجابیوں کی زبان ' تہذیب اور ثقافت تک کو برباد کرکے رکھ دیا ھے۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے پاکستان کے قیام سے لیکر یہ  پروپیگنڈا چلا آ رھا ھے کہ " پاکستان میں فوجی آمریت ھونی چاھیئے ' جمہوریت نہیں "۔ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سیاستدانوں ' صحافیوں ' دانشوروں ' مذھبی رھنماؤں ' سرکاری ملازموں ' ھنر مندوں ' تاجروں نے یہ بار بار کرکے بھی دکھایا۔ جس کے لیے انہوں نے پنجاب اور فوج کو " پاکستان " کے خطرے میں ھونے کا شور مچا مچا کر اور فوج و پنجاب کو " پاکستان " کو بچانے کا واحد ذریعہ قرار دے دے کر خوب بے واقوف بنایا۔

لیاقت علی خان کے بعد پرویز مشرف کا دور ان اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا سنہرا اور پاکستان کا تاریک دور تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کی فوج کا سربراہ بناتے ھی پاکستان مھاجرستان بننا شروع ھو گیا تھا. اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو پاکستان کی فوج کا سربراہ بنانا ھی نواز شریف کی بے عقلی تھی۔ آج پاکستان جن حالات سے گذر رھا ھے اس کی ذمہ داری نواز شریف پر بھی عائد ھوتی ھے کہ اس نے ھندوستانی مہاجر کو پاکستان فوج کا سربراہ بننایا تھا۔ نواز شریف سیاسی شعور سے عاری ایسا شخص ھے کہ پاکستان کی فوج کا کنٹرول ھندوستانی اردو مافیا کے ھاتھ میں دینے کے بعد خود کو وزیراعظم بھی سمجھتا رھا اور محفوظ بھی۔ کیا نواز شریف کو معلوم نہیں تھا کہ ھندوستانی اردو مافیا کے جنرل پرویز مشرف' جنرل شاھد عزیز ' جنرل عثمانی اور دوسرے ملٹری افسر مل کر پاکستان پر قبضہ ضرور کریں گے؟

پاکستان کی موجودہ سیاسی افراتفری کا ماسٹر مائینڈ بھی ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ھے۔ جبکہ عمران خان پاکستان میں ھونے والی سیاسی افراتفری کے کھیل کا ایک مھرہ ھے۔ لیکن بدنام پاک فوج کا ادارہ ھو رھا ھے۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پاکستان کی فوج کے ریٹارڈ اور پاکستان کی فوج میں موجود اپنے واسطے داروں ' الیکٹرونک میڈیا کے کچھ اینکروں ' کچھ تجزیہ نگار اور اپنی آمریت کے دور کے ساتھی اور رابطے میں رھنے والے سیاستدانوں کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کرتا رھا۔ جبکہ تاثر یہ دیا جاتا رھا ھے کہ؛ دراصل پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام ھو رھا ھے۔ مقصد امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ھوئے ایک تو نواز شریف کی کردار کشی کرکے ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کرنا اور دوسرا پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا کہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کو غیر مستحکم کر رھی ھے اور پاکستان کی موجودہ سیاسی افراتفری کی ذمہ دار ھے۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف ایک تیر سے دو شکار کرتا رھا۔ بظاھر اسکا نشانہ نواز شریف کو بدنام کروانا تھا لیکن امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ھوئے اصل نشانہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے عام رکن کو لڑوانا رھا۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا کورٹ مارشل ھوجائے تو پاک فوج کے ادارے کا وقار بھی بڑہ جائے اور پاکستان میں سیاسی استحکام بھی ھو جائے۔

No comments:

Post a Comment