Monday 13 November 2017

گوادر‘ پنجابی سیاستدان اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون کا ویژن

پنجابی سیاستدان اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت نے 1958ء میں گوادر اور اس کے گرد ونواح کا دو ہزار چار سو مربع میل کا یہ علاقہ 10 ملین ڈالرز کے عوض مسقط سے خریدا تھا۔ گوادر کو مسقط سے خریدنے کے بعد پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کا درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا تھا۔ یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گیا تھا۔ 1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو تربت، پنجگور اور گوادر ' مکران ڈویژن کے تین ضلعے بنا دیئے گئے۔ ضلع گوادر کے مشہور علاقوں میں گوادر، جیوانی اور اورماڑہ شامل ہیں۔ 2005ء میں ضلع گوادر کی آبادی تقریباً 250000 کے لگ بھگ تھی۔

مسقط کے ایک شہزادے نے 1781ءمیں قلات کے حکمران کے یہاں پناہ لی تھی۔ قلات کے حکمران نے گوادر کی سالانہ آمدنی شہزادے کی گزر اوقات کے لئے اس کے حوالے کردی۔ بعد میں وہ شہزادہ جب مسقط کا بادشاہ بن گیا تو اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ برطانیہ نے 1839ءمیں علاقہ فتح کیا تو گوادر کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکمران نے 1861ءمیں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن برطانیہ کے قبضے کی وجہ سے برطانیہ نے مسقط اور قلات کے حکمران میں سے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ سے احتراز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے مسئلہ ایک بار پھر اٹھایا۔ 1949ءمیں مذاکرات بھی ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ لیکن 1958ء میں سابق وزیراعظم فیروز خان نون نے گوادر اور اس کے گرد ونواح کا دو ہزار چار سو مربع میل کا یہ علاقہ 10 ملین ڈالر  کے عوض مسقط سے خرید لیا۔

گوادر بندرگاہ دراصل پنجابی سیاستدان اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون کا ویژن تھا۔ بدقسمتی سے ان کے جانشینوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ فیروز خان نون نے اپنی خودنوشت میں لکھا کہ ”جب میں 1956ءمیں وزیر خارجہ بنا تو گوادر سے متعلق کا غذات طلب کئے اور برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے 1957ءمیں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور گوادر کی منتقلی خوش اسلوبی سے عمل میں آگئی۔ فیروز خان نون کے مطابق ”گوادر کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ ہو وہاں پیسہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا“۔

فیروز خان نون نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ”گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت میں بھی اسے ایک پاکستان دشمن طاقت کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتی ہے“۔

فیروز خان نون نے اپنی خودنوشت میں لکھا کہ؛ اس کارنامہ پر نہ کوئی جشن منایا گیا نہ ہی قرار واقعی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور صدر سکندر مرزا سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس موقع پر کوئی جشن نہیں منایا جائے گا۔ کیونکہ اس طرح سلطان مسقط کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ تھا۔ فیروز خان نون کے مطابق ”جب وہ سرحدی تنازعات کے تصفیہ سے متعلق مذاکرات کے لئے دہلی گئے تو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہا ”آپ نے گوادر لے لیا“ میں نے جواب دیا ”جی ہاں لے لیا“۔

No comments:

Post a Comment