پندرہ پنجابی دوردراز پہاڑی راستوں میں بیدردی سے مارے گئے تو اھل
پنجاب کی عظیم اکثریت ایک دوسرے سے پرشکوہ تعزیت میں مصروف ھو گئی۔ کوئی کہتا ھے
کہ ھمارا قصور یہ ھے کہ ھم اپنا نہیں سوچتے اور پاکستان چَلاتے رھتے ھیں۔ کچھ
فرماتے ھیں کہ ھمارا صبر دیکھو کہ آج تک قومیت کی بات زبان پر نہ لائے۔ خود کو صرف
پاکستانی کہتے اور سمجھتے ھیں۔ بعض حساس دل تو پنجابیوں کے بہتے خون کے غم میں
انتقام سے سرخ ھوگئے۔ حل تجویز کیے جانے لگے۔ کوئی کہتا ھے ابھی کسر رہ گئی۔ ذرا
بارود اور ڈالو۔ جو بستیاں ابھی تک جلائی نہیں گئیں ان کا قصہ جلد پاک کرو۔ جن
پہاڑوں سے لوگ نیچے نہیں اتر رھے ان کو ایٹم بم سے بھسم کر دو۔ ان مٹھی بھر
شرپسندوں کو اتنا دباؤ کہ ان کی دُم نکل آئے جو ھل ھل کر اطاعت کا اعلان کرے۔
الغرض جتنے دل اتنے ھی بے دلی کے موضوعات۔ ان سب پر کیا بات کی جائے۔ نام و نسب سے
تو ھم بھی پنجاب سے ھیں اور جب سے پنجاب ھے تب سے پنجاب کے ھیں۔ کبھی یہ گھمنڈ نہیں
ھوا کہ اجداد عرب یا ترکستان سے آئے تھے۔ میرا اور پنجاب کا رشتہ محمد بن قاسم کی
پیدائش سے بھی ھزاروں سال پہلے کا ھے۔ ایک شکوہ ھمارا بھی بنتا ھے۔ اس میں بھی
تعزیت کا رنگ محسوس ھو تو سمجھیے کہ اس خطے کو ھی کوئی تاریخی عارضہ لاحق ھے۔
1۔ ھندوستان تقسیم ھوا تو پنجاب بھی تقسیم ھو گیا۔ جس طرح ھندوستان
کو سیاستدانوں کے آپس کے جھگڑے نے تقسیم کیا اسی طرح میرا وطن پنجاب بھی اسمبلی
میں بیٹھے نمائندوں نے ایک ووٹ سے تقسیم کردیا۔ نمائندوں کی اکثریت ملک ' خان بہادر
اور نوابوں پر مشتمل تھی جنہیں میں نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔ لیکن میرے خون میں
شروع سے مسئلہ رھا ھے کہ بے عقلی میں جوش مارتا رھتا ھے۔ میں نے اپنے لاکھوں
پنجابیوں کو اپنے ھاتھوں سے قتل کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ چونکہ ان کا خدا میرا خدا نہیں
ھے۔ لہذا اس قتل عام سے تمہارا خدا خوش ھوگا۔ میں نے اپنے صدیوں کے ھمسایوں اور ھم
وطنوں کو انکے گھروں سے باھر کھینچا۔ جسے کل تک ماں کہتا تھا آج اسے ننگا کر کے
جلوس نکالا۔ جسے بہن کا درجہ دیتا تھا اس کے بازو سونے کی چوڑیوں کے لیے کاٹ ڈالے۔
میں اتنا اندھا تھا کہ مجھے علم ھی نہ ھوا کہ قاتل بھی میں تھا اور مقتول بھی میں۔
دونوں طرف پنجابی تھے۔دونوں ایک دوسرے کو کاٹتے مارتے رھے۔
2۔ میرے ھاتھ سے قتل ھوئے ان پنجابیوں کی بدروح نے پورے پنجاب
میں آوارہ بھٹکنا شروع کردیا۔ میں نے ابھی خنجر بھی نہ دھویا تھا کہ تاریخ کا
انتقام جاری ھوگیا۔ تقسیم کی جدوجہد میں مجھے بتایا گیا تھا کہ نیا وطن بن گیا تو
اصل طاقت صوبوں کے پاس ھوگی جو دوسرے صوبوں سے بھائی بن کر مشورے سے کام چلائیں
گے۔ نئے وطن میں میرا پنجاب ایک معزز اکائی ھوگا۔ جب تقسیم ھو چکی تو بتایا گیا کہ
نہیں ، اصل طاقت وفاق کے پاس ھوگی۔ وفاق کو ایک بڑی سرکار چلائے گی۔ بڑی سرکار کو
وطن بھی بڑا چاھیئے۔ پنجاب اب پنجاب نہیں رھا۔ اب یہ بڑے وطن کا ایک حصہ بن گیا ھے۔
مجھے بتایا گیا کہ ایک ھی رات میں میری دھرتی کا رنگ بدل گیا ھے جس سے ھم سب دیس
وادیوں کی پہچان بھی بدل گئی ھے۔ اب ھم پنجابی نہیں رھے بلکہ پاکستانی ھیں۔ میں نے
پھر مان لیا۔
3۔ اگلی صبح مجھے بتایا گیا کہ میں جو زبان صدیوں سے
بولتا آیا ھوں اب بے معنی اور غیر متعلق ھوگئی ھے۔ اب میری زبان اردو ھوگی۔ مجھے
کہا گیا کہ اردو تمہارے مذھب کا حصہ ھے اور ھند میں مسلمانوں کو اردو نے مسلمان
بنایا ھے۔ اس دیس میں سب مسلمان اردو بولیں گے۔ ساتھ ھی ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ
میرے پرکھوں کی بولی اجڈ ' غیر مہذب اور وحشی زبان ھے۔ باقی علاقوں کا خدا جانے پر
میں نے تو یہ بات فوراً مان لی۔ لیکن اس دن کے بعد جب بھی میں اپنے بڑوں کی قبروں
پر جاتا تو لگتا کہ جیسے اب میں ان سے بات نہیں کر سکتا۔ میں نے دنیا کے ساتھ چلنے
اور رابطہ کاری کے لیے یہ قربانی بھی دی۔ وارث شاہ کی ھیر ردی والا لے گیا۔ بابا
فرید کا کلام کھیں پرانے سامان میں اوپر نیچے ھوگیا۔ میرے بچے میرؔ اور غالبؔ حفظ
کرنے لگے تو مجھے ھیر کا گایا جانا بھی بھول گیا۔ میں نے اطاعت کا حق ادا کرتے ھوئے
خود اپنی زبان اپنے دانتوں سے کاٹ لی۔ دوسرے صوبوں میں تو لوگ اپنی زبانیں بھی
بولتے رھے لیکن مجھے فرمانبرداری میں اول آنا تھا۔ میں نے اس کا حق ادا کیا۔ جس
سرکار نے مجھے اردو زبان کا تحفہ دیا وہ اسے اپنے وطن سے ساتھ لائے تھے۔ اردو کی
پیدائش سے کئی سو سال پہلے میری زبان میں دیوان مرتب ھو رھے تھے۔ لیکن مجھے اس کی
بڑی عمر کا خیال بھی نہ آیا۔ میں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ سرکار مجھے اردو پر لگا
کر اپنا سارا کام پھر بھی انگریزی میں کرتی ھے۔ میں نے حق اطاعت ادا کیا اور سرکار
سے کبھی یہ سوال نہ کیا۔ اپنے بھائی مارے تو اندھا ھوا۔ اب زبان سے گیا تو گونگا
بھی ھوگیا۔ میری انسانی طاقتیں ایک کے بعد ایک ختم ھو رھی تھیں۔ مجھے کبھی یہ خیال
نہ آیا کہ جب یہ سب ختم ھوجائیں گی تو میں سرکار کا گدھا بن کر رہ جاؤں گا۔ میری
بلا جانے۔
4۔ تقسیم سے پہلے گورا صاحب ھمیں کہتا تھا کہ تم
لڑتا بہت اچھا ھے۔ تیرا قد کاٹھ بھی موزوں ھے۔ میں نے سرکار کے لشکر بھرنے شروع
کردئیے۔ مجھے عراق سے مصر اور برما سے یورپ تک کی جنگوں کا ایندھن بنایا گیا۔ جب
میں مرجاتا تو میرے گھر اطلاع بعد میں پہنچتی اور پہلے میرے بڑے بیٹے کو بھرتی کیا
جاتا۔ میں اجنبی جنگوں میں گمنام موت پر تعریفی سند پاکر بھی مطمئن رھا اور اپنی
نسلوں سے لشکروں کی صفیں بھرتا رھا۔ نئی سرکار کے نئے لشکر میں بھی اکثریت میرے
بیٹوں کی رھی۔ انہیں بھی وھی بیماری رھی۔ لشکری بن کر اِتراتے رھے اور ان کی جنم
بھومی کی شکل ' زبان تک بدل دی گئی۔ انہیں کانوں کان خبر نہ ھوئی۔ سرکار کے حکم پر
آزمائشی فائر کی مشقوں میں مصروف تھے۔
5۔ میرے کنبہ بڑا اور جھولی وسیع تھی۔ نئی سرکار
آسمان سے گری تو کھجور کے بجائے اس میں آ پڑی۔ میرے کنبے نے سرکار کا بڑا حصہ تو
سنبھال لیا لیکن جلد سمجھ گیا کہ اگر اپنی گھر کی شکل ٹھیک کروں گا تو پڑوسی کو
بھی اجازت دینا ھوگی۔ اس نے پڑوسی کو دبانے میں اپنے گھر کا لحاظ بھی نہ کیا۔
دونوں پر قبضہ کرلیا۔ مجھ پر دوھری آزمائش تھی۔ میرا مکان میرے ھی قرابت دار نے
چھین لیا۔ گلہ پہلے بھی نہ ھوتا تھا اب بھی نہ ھوا۔ لیکن کبھی کبھی ندامت کا دورہ
پڑتا ھے تو اپنے کیے دھرے کا اجر سامنے نظر آنے لگتا ھے۔
6۔ اپنے گئے ' ماں بولی گئی ' نام پہچان گئی ' سرکار
کو جانوں کے خراج دیتا رہا ' پھر اپنے سرکار بن گئے ۔ باھر سب ویسا رھا۔ صرف میں
ختم ھوگیا۔
7۔ میں ختم ھوا تو میرا چوپال ' میری بیٹھک ختم ھوگئی۔
میری درگاھیں ویران ھوگئیں۔ نئے نئے لوگ ' بھانت بھانت کی بولیاں اور مسلک ' فرقے
میری گلیوں میں دندانے لگے۔ ایک بیٹی نے وارث شاہ کو آواز دی تھی مگر جواب نہ آیا۔
وقت گزرا تو فرید اور بلہا بھی خاموش ھوگئے۔ محبت گئی ' بھائی چارہ گیا۔ لباس گئے
' رسمیں گئیں۔ میلے اجڑ گئے۔ اس سب کی ابتدا تب ھوئی تھی جب میں نے نادانی میں
اپنی پہچان بدل لی تھی اور اپنے پنجاب سے دستبردار ھوا تھا۔ لیکن میں ھمیشہ
فرمانبردار اور مستقبل سے غافل بس کام چلاتا رھا۔ میں چاھتا تھا کہ کم از کم میرا
جسم ضرور زندہ رھے۔ پھر مجھ میں عجیب و غریب آسیب گھس گئے۔ میں نے مذھب اور سرکار
کے نام پر اپنے گلی کوچے رنگین کیے۔ میری ناخلف نسلوں نے سرکار اور ریاست کے لالچ
میں مجھے فراموش کردیا۔ میرا جسم توانا رہ بھی گیا تو کیا؟ مجھ میں کوئی روح باقی نہیں
ھے۔
No comments:
Post a Comment