لاہور کے بارے میں
سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ھوئے لاہور سے 630
عیسوی میں گزرا۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس
کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی
آباد کی تھی۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور"
یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ
کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح
"الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ
جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔
درحقیقت اس کا
دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر
رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج
سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا
ہے۔
ساتویں صدی عیسوی
کے اواخر میں لاہور ایک گجر چوہان بادشاہ کا پایہٗ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق سنہ
682 عیسوی میں کرمان اور پشاور کےمسلم قبا ئل ' راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری
رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ
علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔
نویں صدی عیسوی
میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لئے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔
دسویں صدی عیسوی
میں خراسان کا صوبہ دارسبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجہ جے پال جس کی
سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لئے آیا۔ راجہ جے پال حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ لیکن غزنی کے تخت پر
قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن
پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال
تاوانِ جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لئےہرکارے راجہ کے ہمرکاب
کئے۔ لاہور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید
کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ
پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ
سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر
راجہ جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف تاوان کی وصولی تھی کیونکہ اس نے مفتوحہ
علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔
1008عیسوی میں جب
سبکتگین کا بیٹا محمود پنجاب پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک
لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لئے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے
کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔
نتیجتاً کچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور
محفوظ رہا۔
آنند پال کے بعد
اس کا بیٹا ترلوچن پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022 تک برقرار
رہی حتٖی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ترلوچن پال اور اس
کا خاندان اجمیر پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور
پھر کبھی بھی کسی ہندو پنجابی کی سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔
محمود کے پوتے
مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لئے چڑھائی کی مگر چھ
ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے
اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نےشہرکے گرد دیوار
قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی
بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔
غزنوی حکمرانوں کے
ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا
تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں (1114-1098) دارالحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل
کر دیا گیا۔ اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک
دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186میں غزنوی خاندان کے زوال
تک برقرار رہی۔
غزنوی خاندان کے
زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلاماں کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف
سازشوں کا مرکز رہا۔
1241 عیسوی میں
چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی
کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی
فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق
شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ
راجپوتوں نے اسے لوٹا۔
1397 میں امیر
تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم
اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک
افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔ اس کے بعد سے لاہور کی حکومت
کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکھڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی۔ یہاں تک کہ 1436 میں
بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان
لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان
لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئے مغل شہزادے بابر کو پکارا۔
بابر پہلے سے ہی
پنجاب پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس
پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ
ہوا جس میں بابر فتحیاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف
پیشقدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسے دولت خان لودھی
کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاہور کی جانب بڑھا اور
مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِانتظام کرکے کابل واپس ہوا۔ اگلے برس
لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاہور
ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لئےسامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے
پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاہور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت
کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان
میں مغلیہ سلطنت کی ابتداء لاہور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔
1575ء میں اکبر نے لاہور کو سلطنت کا دار الحکومت
بنایا۔ اس کے بعد شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر نے بھی اپنے ادوار میں قلعے میں
توسیع اور عمارات تعمیر کیں۔ 1641ء میں شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا۔
1673ء اورنگزیب عالمگیر نے قلعہ لاہور کے سامنے عظیم الشان بادشاہی مسجد تعمیر
کروائی۔ اس کے علاوہ مغل دور میں کئی عالی شان عمارات اور باغات لگوائے گئے۔ اندرون لاہور جسے قدیم لاہور بھی کہا جاتا ہے کی حفاظت کے لیے
شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے۔
سترہویں صدی کے دوران مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ لاہور
پر اکثر حملہ کیا جاتا رہا۔ حکومتی عملداری کا فقدان رہا۔ 1761ء تک احمد شاہ
ابدالی نے مغلوں کی باقیات سے پنجاب اور کشمیر چھین لیا۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی
شاعر وارث شاہ نے اسی مناسبت سے کہا؛ ” کھادا پیتا لاھے دا - باقی احمد شاھے دا “
اٹھارویں
صدی میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی۔ صوفیاء کی آمد کی وجہ سے لاہور کا علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ بن چکا تھا۔ 1740ء کی دہائی افراتفری کی رہی۔ 1745ء سے 1756ء کے درمیان شہر کے نو گورنر رہے۔ درانی سلطنت اور مراٹھا سلطنت کی طرف
سے بار بار حملے پنجاب میں اقتدار کے خلا کا باعث بنے۔ سکھ مثلوں کی درانی سلطنت
سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور آخر کار بھنگی مثل لاہور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو
گیا۔
1799ء
میں زمان شاہ درانی کے حملے کے بعد خطہ مزید غیر مستحکم ہو گیا جس کے نتیجے میں
رنجیت سنگھ کو اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ رنجیت سنگھ کا زمان شاہ
درانی کے ساتھ جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں رنجیت سنگھ کامیاب ہوا اور خطہ سکھوں کے زیر انتظام آ گیا۔
مغلیہ
دور کے لاہور کی عالی شان عمارات اٹھارویں صدی اواخر میں کھنڈر بن گئیں تھیں۔ سکھ سلطنت
نے تعمیر نو کا کام شروع کیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ خود لاہور قلعہ میں منتقل ہو گیا
اور سکھ سلطنت کے انتظام کے لیے اسے مرکز بنایا۔ 1812ء تک سکھوں نے اکبر کے زمانے
کی اصل دیواروں کے ارد گرد بیرونی دیواریں بنا کر شہر کا دفاع مضبوط بنایا۔ اس کے
علاقہ شاہجہان کے تنزل پزیر شالامار باغ کو بھی جزوی طور پر بحال کیا۔
1839 میں
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد 1849 میں پنجاب پر برطانیہ کا قبضہ ھوگیا۔
برطانوی راج کے آغاز میں لاہور کی آبادی کا تخمینہ 120،000 تھا۔ برطانوی قبضہ کے
وقت لاہور بنیادی طور پر شہر کے فصیل کے اندر اور کچھ نواحی میدانی علاقے کے
بستیوں جس میں باغبانپورہ، بیگم پورہ، مزنگ اور قلعہ گجر سنگھ پر مشتمل تھا۔
برطانوی
دور میں اندرون لاہور پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی او ان کی تمام تر توجہ لاہور کے
مضافاتی علاقوں اور خطۂ پنجاب کے زرخیز دیہی علاقوں پرمرکوز رہی۔ انگریزوں نے
اندرون شہر کی بجائے شہر کے جنوب میں ایک علاقے کو اپنا مرکز بنایا جسے "سول
سٹیشن" کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ شہر کی فصیل اور قلعہ لاہور کی فصیل کو غیر
موثر کر دیا تا کہ کوئی قلعہ بندی ممکن نہ رہے۔
ابتدائی
برطانوی دور میں "سول سٹیشن" میں واقع ممتاز مغل دور کی یادگاروں کو
دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ مقبرہ انارکلی کو ابتدائی طور پر دفاتر کے لیے
استعمال کیا گیا، جبکہ 1851ء میں اسے ایک گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ مقبرہ نواب
بہادر خان کو ایک گودام میں اور مقبرہ میر مانو کو ایک شراب کی دکان میں تبدیل کر
دیا گیا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے کئی دیگر عمارات کو سول سیکرٹریٹ، پبلک ورکس
ڈیپارٹمنٹ اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے لیے استعمال کیا۔
1857ء
کی جنگ غدر کے بعد شہر سے باہر لاہور ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا۔ اس کے ڈھانچے کو
قلعے کے انداز میں موٹی دیواروں میں توپیں داغنے کے سوراخوں کے ساتھ دفاع حکمت
عملی کے تحت تعمیر کیا۔ تا کہ مستقبل میں ممکنہ بغاوت کی صورت میں ایک محفوظ حصار
کے طور پر کام آ سکے۔
برطانوی
دور کے اہم سرکاری ادارے اور تجارتی مراکز سول اسٹیشن کے ڈیڑھ میل کے علاقے میں
مرکوز رہے اور اسی کے پہلو میں مال روڈ بنائی گئی جہاں لاہور کے فوجی علاقوں کے
برعکس برطانوی اور مقامی لوگوں کے اختلاط کی اجازت دی گئی۔ مال روڈ لاہور کی شہری
انتظامیہ کے مرکز کے ساتھ جدید تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔
برطانوی
راج کے دوران مال روڈ پر کئی قابل ذکر ڈھانچے تعمیر کیے گئے جن میں منٹگمری ہال جو
موجودہ دور میں قائداعظم لائبریری ہے اور لارنس گارڈنز اہم ہیں۔ باغات میں لندن کے
رائل بوٹینک گارڈنز سے بھیجے گئے 600 سے زیادہ اقسام کے درخت اور پودے اگائے گئے۔
اس کے علاوہ انگریزوں نے وسیع علاقے پر لاہور کنٹونمنٹ کی بنیاد بھی رکھی۔
1887ء
میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کئی اہم عمارات تعمیر کی گئیں جن میں
لاہور عجائب گھر اور میو اسکول آف آرٹس سب سے اہم ہیں۔ دیگر اہم عمارات میں ایچیسن
کالج، لاہور ہائی کورٹ اور یونیورسٹی آف پنجاب قابل ذکر ہیں۔ لاہور میں اس دور کی
اہم عمارتوں کا ڈیزائن سر گنگا رام نے بنایا۔
1901ء
میں انگریزوں نے لاہور میں مردم شماری کروائی جس کے مطابق فصیل دار شہر میں 20،691
گھرتھے اور ایک اندازے کے مطابق 200،000 افراد لاہور میں مقیم تھے۔
تحریک
آزادی ہند میں لاہور کا بہت اہم کردار رہا۔ 1929ء میں جواہر لعل نہرو کی قیادت میں
کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں "مکمل آزادی" کی قراداد
پیش کی گئی جسے 31 دسمبر 1929ء کی آدھی رات کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اسی
موقع پر ترنگا (درمیان میں چکرا سمیت) کو بھارت کے معاصر قومی پرچم کے طور پر لہرا
گیا جسے ہزاروں لوگوں نے سلامی دی۔ لاہور جیل آزادی کے لیے لڑنے والوں کو حراست
میں رکھنے کی ایک جگہ تھی۔ انقلابی بھگت سنگھ کو بھی لاہور جیل میں پھانسی دی گئی۔
قائد
اعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 1940ء میں لاہور میں
منعقد ہوا جس میں قرارداد لاہور منظور
کی گئی۔
No comments:
Post a Comment