پاکستان میں 2008 سے 2013 تک پاکستان کی وفاقی جبکہ سندھ کی اور
بلوچستان کی صوبائی حکومت پی پی پی کی رھی۔ خیبر پختونخواہ میں پی پی پی اور اے
این پی کی مخلوط حکومت رھی اور آصف زرداری پاکستان کا صدر رھا۔ اس لیے 2013 کے
انتخاب کے وقت سندھ کے اور جنوبی پنجاب کے بلوچوں اور عربی نزاد سیدوں کی حمایت
حاصل ھونے کے علاوہ آصف زرداری کی سیاسی پارٹی پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور
بلوچستان میں بھی وجود تھا جبکہ پنجاب میں ن لیگ کے بعد پی پی پی ھی دوسری بڑی
سیاسی پارٹی تھی۔
لیکن 2013 کے انتخاب میں نہ صرف پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور
بلوچستان سے صفایا ھوگیا بلکہ پنجاب میں بھی ن لیگ کے بعد پی پی پی دوسری بڑی
سیاسی پارٹی نہ رھی اور پی ٹی آئی نے پی پی پی کی جگہ لے لی۔ اس لیے 2013 کے مقابلے
میں 2018 میں سیاسی طور پر آصف زرداری کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ھے۔ اب 2018 کے
انتخاب میں پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ھی نہیں بلکہ پنجاب میں
بھی وجود نہ ھونے کی وجہ سے پی پی پی کا اور آصف زرداری کا سیاسی کردار سمٹ کر
سندھ تک محدود ھوچکا ھے بلکہ دیہی سندھ تک محدود ھوچکا ھے۔
2013 کے انتخاب میں آصف زرداری سندھ کی حکومت بنانے میں آسانی
سے کامیاب ھوگیا تھا لیکن اب 2013 کے بعد سے لیکر دیہی سندھ میں آصف زرداری کے لیے
اور سندھ کی حکومت کے لیے انتہائی نا پسندیدگی پائی جاتی ھے۔ جبکہ کراچی میں پہلے
سے ھی آصف زرداری اور پی پی پی کا اثر نہ ھونے کے برابر تھا لیکن 2013 سے لیکر سندھ حکومت کی کراچی میں لوٹ مار کی وجہ سے
بالکل ختم ھوچکا ھے۔
اس لیے نواز شریف نے اگر دیہی سندھ میں سے سیاسی حمایت حاصل
کرلی یا سندھ کے سماٹ اور سید خود کو متحد اور منظم کرنے میں کامیاب ھوگئے تو پھر
2018 کے انتخاب میں آصف زرداری کی حمایت صرف دیہی سندھ کے بلوچوں تک محدود ھوجانی
ھے اور آصف زرداری نے تنہا سندھ کی حکومت بنانے کے قابل نہیں رھنا اور سندھ کی
آئندھ حکومت مخلوط بنے گی۔
اس کے علاوہ نگراں حکومت کے قائم ھوتے ھی 2013 سے لیکر سندھ کی
صوبائی حکومت کی طرف سے کی جانے والی کرپشن کے خلاف نیب کی کاروائی کے امکانات بھی
ھیں۔ جسکی وجہ سے پی پی پی کے اھم رھنماؤں کی گرفتاری ھوجانی ھے۔ اس لیے 2013 کے
انتخاب کے مقابلے میں 2018 کے انتخاب میں آصف زرداری کا کردار نہ ھونے کے برابر
ھے۔
No comments:
Post a Comment