Wednesday, 18 April 2018

پنجاب تباہ ' پنجابی قوم برباد اور پنجابی " بستہ ب بدمعاش " کیسے بنا؟

جب "3 جون 1947 کے لارڈ ماونٹ بیٹن پلان" کی سفارشات کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 15 جولائی 1947" کے تحت 15 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں تھا اور نہ بھارت میں تھا۔ پاکستان کا قیام 15 اگست 1947 کو عمل میں آیا اور پنجاب کو 17 اگست 1947 کو تقسیم کرکے پاکستان اور بھارت میں شامل کیا گیا۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجابیوں کو بتایا گیا کہ پنجاب کے کون سے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے ھیں اور کون سے اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے ھیں۔ جبکہ پنجاب کو تقسیم کرنے والی 10 ارکان پر مشتمل کمیٹی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کسی مسلمان پنجابی کو شامل نہیں کیا تھا۔ بحرحال 17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی ھونی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی ھونی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو بننا چاھیے تھا جبکہ وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ لیکن 15 اگست کو پاکستان کے قیام کے اعلان سے ایک دن پہلے ھی ٹھٹھہ کے علاقے جھرک میں پیدا ھونے والے سندھی خوجے جناح پونجا کے بیٹے محمد علی نے ' جسے قائد اعظم بھی کہا جاتا تھا ' 14 اگست کو پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا اور اترپردیش سے کراچی پہنچ جانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا کر سندھ میں پاکستان کے قیام کا جشن منانا شروع کریا گیا۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی پنجاب کی تقسیم کا اعلان ھو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی لاشیں گرا رھے تھے اور پنجاب کے علاقوں کی بھارت اور پاکستان میں بندر باٹ کا انتظار کر رھے تھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم ھوجانے کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو ' جو سارے پنجاب میں آپس میں مل جل کر رھتے تھے ' پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم قرار دیے جانے والے علاقوں میں نقل مکانی شروع کرنا پڑی۔ جسکی وجہ سے مزید مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا اور اگست سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔ سندھی محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی سیاسی پارٹی یونینسٹ کو ھرانے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو 1946 کا الیکشن جتوانے کے لیے سندھی محمد علی جناح نے پنجاب میں مذھبی نفرت کی جو آگ لگائی ' پنجابی قوم اب تک اس میں جل رھی ھے۔

سندھی محمد علی جناح نے برطانوی ایجنڈے اور یوپی ' سی پی والوں کے سیاسی مفادات پر کام کر کے جو ظلم پنجابی قوم پر کیا اس نے پنجاب کو تباہ اور پنجابی قوم کو برباد کردیا۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں ' ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘ بلوچوں نے خود تو حکومت کے سیاسی و انتظامی عہدوں ' زمینوں ' جائدادوں پر قبضے کرنے اور لوٹ مار کرنے جبکہ الزام پنجابیوں پر لگا لگا کر پنجابیوں کی ایسی تسی کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاکہ مغربی پاکستان سے ایک ھزار میل دور بیٹھی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی مشرقی پاکستان کے بنگالی یہ سمجھیں کہ مغربی پاکستان میں قبضہ گیری اور لوٹ مار مغربی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی پنجابی کر رھی ھے۔ اس تاثر کو یقینی بنانے کے لیے منظم طور پر یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم لیاقت علی خاں مشرقی پنجاب کے علاقے کرنال میں پیدا ھوا اس لیے وہ پنجابی ھے۔ جس سے بنگالیوں کی پنجابیوں سے شکایت نے جنم لیا کہ پنجابی قوم نے اپنے لیے تو پاکستان کی وزارتِ اعظمٰی لے لی لیکن پاکستان کا گورنر جنرل بننے کا حق بنگالیوں کے بجائے سندھیوں کو دلوا دیا۔

پنجابیوں کے اجڑے ' برباد اور بے گھر ھونے اور حکومت کے سیاسی عھدوں پر نہ ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کے خلاف حکومتی سطح پر ھونے والے پروپیگنڈہ کا پنجابیوں کی طرف سے جواب نہ دے پانے اور خاموش رھنے کی وجہ سے یہ سلسلہ مسلسل جاری رھا۔ اس لیے بنگالیوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان ھی کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی نے بھی اس پر یقین کرنا شروع کرلیا۔ لہٰذا پنجابی " بستہ ب بدمعاش " بن گیا۔ قبضہ گیری اور لوٹ مار عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی ' ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کرتے رھے۔ کھاتے میں پنجابیوں کے پڑتا رھا۔ بلکہ صحیح معلومات نہ ھونے کی وجہ سے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی ' ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کے ساتھ ساتھ بنگالی اور سماٹ ' ھندکو ' بروھی نے بھی یہ سلسلہ شروع کردیا اور پنجابی کا " بستہ ب بدمعاش " والا کھاتہ بڑھتا گیا۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تو بنگالی ھونی چاھیے تھی جبکہ مغربی پاکستان کی نہ سہی تو پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ھونی چاھیے تھی۔ لیکن پاکستان کے سندھی گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی عوام سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں سندھی محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ھوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہا کہ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھوں گے۔ اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے لیے پاکستان میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اردو میں تعلیم حاصل کرنا قانونی حکم بن گیا جس کی خلاف ورزی جرم قرار پائی۔ 

پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مزید اقدامات کرتے ھوئے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر مشرقی پاکستان کی ثقافت اور مغربی پاکستان کی اصل قوموں کی وادیء سندھ کی ثقافت کی جگہ اتر پردیش کی ثقافت کو فروغ دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔ جبکہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں ھونے لیکن مغربی پاکستان کے خطے کی سب سے بڑی قوم پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کو حکومتی طور بھی بے بس اور اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔

پاکستان پر حکومتی گرفت ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا اور انہیں متروقہ املاک میں سے مکانات ' زمینیں ' جائیدادیں دینے کے علاوہ سرکاری نوکریاں دینی شروع کردی گئیں۔ 

ھندوستان مھاجروں کو پاکستان لانے پر سے دھیان ھٹانے کے لیے کہ؛ وہ ھندوستان سے آئے ھیں یا مشرقی پنجاب سے آئے ھیں؟ حکومتی سطح پر حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی جگہ پنجاب میں آنے والے مسلمان پنجابیوں کو پنجابی کے بجائے مھاجر قرار دیا جانے لگا اور انہیں پنجاب کے بجائے ھندوستان سے آنے والے مھاجر کہا جانے لگا۔ یہ پروپیگنڈہ سرکاری نشریاتی ذرائع سے کیا گیا۔ اس کی وجہ سے تفریق ھی نہ رھی کہ کون سا مسلمان مشرقی پنجاب سے آیا ھے اور کس کو ھندوستان سے لایا گیا ھے۔ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی جگہ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے مغربی پنجاب آنے والے مسلمان پنجابیوں کو پنجابی کے بجائے مھاجر قرار دینے کی وجہ سے ان پنجابیوں کی اپنی پنجابی شناخت بھی ختم کردی گئی۔ لیکن دوسری طرف حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ جب بھی ھندوستانی مھاجروں کی قبضہ گیری اور لوٹ مار کی بات کی جاتی تو مشرقی پنجاب کے مھاجر بنائے گئے پنجابی کے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈال دی جاتی کہ یہ قبضہ گیری اور لوٹ مار مھاجر پنجابی کرتے ھیں۔ جبکہ بھارت کی سرپرستی میں پٹھان غفار خان ' بلوچ خیر بخش مری ' عربی نزاد جی - ایم سید ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجاب اور پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے عمل نے تو پنجابی کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے کے سلسلہ کو بہت زیادہ فروغ دے دیا۔

No comments:

Post a Comment