پاکستان کی سیاست 4 افراد مھاجر مشرف ' بلوچ آصف زرداری ' پٹھان
عمران خان ' پنجابی نواز شریف کے گرد گھوم رھی تھی۔ مھاجر مشرف اب پاکستان کی
سیاست سے فارغ ھوچکا ھے۔ مھاجروں کے پاس اب مشرف کا متبادل لیڈر بھی نہیں ھے۔ اس
لیے مھاجروں کا اب پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
بلوچ آصف زرداری اب جون 2018 میں سندھ حکومت کی مدت ختم ھونے کے
بعد فارغ ھونے والا ھے۔ سندھ کے بلوچوں اور جنوبی پنجاب کے بلوچوں کے پاس بلوچ آصف
زرداری کا متبادل لیڈر بھی نہیں ھے۔ اس لیے سندھ کے بلوچوں اور جنوبی پنجاب کے
بلوچوں کا اب پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی نے جولائی 2018 میں ھونے
والے انتخابات میں 2013 کے مقابلے میں نہ صرف پنجاب سے کم نشستیں لینی ھیں۔ بلکہ
خیبر پختونخواہ سے بھی نشستیں نہیں لے پانیں۔ خیبر پختونخواہ سے ن لیگ ' جے یو آئی
' اے این پی اور آزاد امیدواروں نے پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو خیبر
پختونخواہ سے بری طرح شکست دے دینی ھے۔ جبکہ بلوچستان ' سندھ اور کراچی میں ویسے
ھی پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا وجود نہیں ھے۔ اس لیے پٹھان عمران خان
نے 2018 کے انتخاب کے بعد پاکستان کی سیاست سے فارغ ھو جانا ھے۔ پٹھان قیادت خیبر
پختونخواہ میں اسفند یار ولی اور بلوچستان میں محمود اچکزئی جیسے مقامی سیاستدانوں
تک محدود رھنی ھے۔ جبکہ پنجاب ' سندھ اور کراچی کے پٹھانوں کا اب پاکستان کی
مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے
لیے نا اھل کرنے کے باوجود پاکستان کی سیاست سے نہیں نکالا جا پا رھا۔ پنجاب میں
مھاجر مشرف ' بلوچ آصف زرداری ' پٹھان عمران خان مل کر بھی پنجابی نواز شریف کے
تائید کردہ اراکین کو شکست نہیں دے پائیں گے۔ پنجاب کی آئندہ صوبائی حکومت پنجابی
نواز شریف کے تائید کردہ اراکین ھی بناتے نظر آرھے ھیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت
بنانے کے لیے 137 نشستیں درکار ھوتی ھیں۔ پنجاب میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی 144
نشستیں ھیں۔ وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے والوں
کی کوششوں کے باوجود پنجابی نواز شریف کے تائید کنندگان یا تو پنجاب سے ھی نشستیں
حاصل کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت بنالیں گے یا پھر پاکستان کی بننے والی مخلوط
حکومت کی 100 سے زیادہ نشستوں کے ساتھ واحد جماعت کی صورت میں بہت مظبوط اپوزیشن
ھوں گے۔ اس صورت میں پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب
کے لیے نا اھل کروانے والوں کے لیے پنجابی نواز شریف ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ بن
جائے گا۔ جو نہ تو پاکستان کی مخلوط حکومت چلنے دے گا اور نہ پنجابی نواز شریف کو
وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے والوں کو چین سے
رھنے دے گا۔ پاکستان کے انتظامی اور معاشی معاملات تو ویسے ھی 2013 سے پنجابی نواز
شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے کی سرگرمیوں
کی وجہ سے تباہ اور برباد ھو ھی رھے ھیں لہٰذا مستقبل میں مزید تباہ اور برباد ھوں
گے۔ کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کا اثر سب سے زیادہ ملک کے انتظامی اور معاشی
معاملات پر ھی پڑا کرتا ھے۔ جبکہ سیاسی بحران ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات کو
تباہ اور برباد کردیتے ھیں۔
No comments:
Post a Comment