برٹش
انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ
یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں
مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں
دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں
اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنی سماجی برتری اور سیاسی
بالادستی کے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے
لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا
کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے
لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل برٹش
انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔
اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان
ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر
حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300
سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار
دیا تھا۔
سینٹرل
برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ
مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک
تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت
پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں
کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع
کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی
زبان بھی ایک ھی ھے۔ انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی
ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ
تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک
سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں
کو برتری حاصل ھونا تھا۔
پاکستان
کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو
بولنے والا ھندوستانی ' لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔
پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا
تھا۔ جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر پنجاب کو تقسیم کروا کر 20
لاکھ پنجابی مروائے گئے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے۔ لیکن پاکستان کے قائم
ھونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی ھی عوام سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا
حکمرانی کا حق چھینا گیا۔ جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی متخب
حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گو رنر
ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی متخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ اسی روایت کو
برقرار رکھتے ھوئے بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو
پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا- یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال
کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا
گیا۔
لیاقت
علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار
دیکر پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید
احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار
دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے
لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔
25
جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب
اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے
والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار
عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی
راہ ھموار کردی۔
پاکستان
کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر
اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد اتر پردیش میں واقع علیگڑہ
مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں
سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی
حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو
بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیےانتظامی گرفت
مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی '
انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی
سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور
بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں '
سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ
ھوگیا۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے
وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر
سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ
سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ
پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی
آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے
پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے
بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔
اب
یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب
کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے۔ گذشتہ تین دھائیوں سے ایم
کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ
کرنے کی سازشیں کر رھا ھے۔ حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں
میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی
اور تعاون کرتے ھیں۔ تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں
کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔
پاکستان
بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی
اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے۔
پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے
مغرب کی طرف منتقل ھوئے۔ لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے
خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی
رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان
میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں۔ جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں
کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔
پاکستان
اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور
ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور
پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور
اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول
بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے
دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد
امریکہ ' برطانیہ ' کنیڈا ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔
دراصل
1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو
بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی
پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی
ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔
بین
الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر
سازشیں کرنا اور بین الاقوامی امور میں دلالی کرنا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے
والے ھوندوستانی مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شھری علاقوں’ سیاست’ صحافت’
صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے۔ اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں '
جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان '
بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھائے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں
اوراس کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "پاکستان فرسٹ" تو اس
سے مراد صرف "کراچی " ھوتا ھے۔ پاکستان کی اصل قوموں پنجابی '
سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے علاقے پنجاب ' دیہی سندھ ' کے پی کے ' بلوچستان نہیں
ھوتے۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی
نہیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "کراچی والے" تو اس سے
مراد صرف " کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر" ھوتا ھے۔ نہ
کہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی۔ جن سے یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔
اردو
بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "پاکستانیت کو فروغ دیا
جائے" تو اس سے مراد "اردو زبان ' یوپی ' سی پی کی تہذیب اور گنگا
جمنا کی ثقافت" ھوتا ھے۔ نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان '
تہذیب اور ثقافت بھی۔ جس سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو
کوئی دلچسپی نہیں۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا
خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے
لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے
ھیں۔ جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف
بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان
کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔
No comments:
Post a Comment