پاکستان
کے ممتاز سیاست دان اور متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ مردان علی شاہ پیر پگاڑا مرحوم
کا ایک یادگار انٹرویو روزنامہ جنگ میں 16 جولائی 2000 کو شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے
پینل میں جناب سہیل وڑائچ، جناب زاہد حسین اور جناب عارف الحق عارف شامل تھے۔ ذیل
میں تاریخی دلچسپی کے لئے اس انٹرویو کے کچھ منتخب حصے پیش کئے جا رہے ہیں۔
سوال:
پیر صاحب! آپ متحدہ مسلم لیگ کے صدر رہے ہیں، اس حوالے سے گفتگو کا آغاز تحریک
پاکستان سے کرتے ہیں؟
جواب:
اس حوالے سے پہلے یہ واقعہ سن لیں پاکستان بننے سے پہلے تین جگہ پر ہندو مسلم
فسادات ہوئے ان میں سے ایک علی گڑھ میں ہوا۔ یہ 1945 کا واقعہ ہے کہ میں علی گڑھ
کی نئی بستی میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علم ہوا کہ ایک سندھی قتل ہوگیا، ہم وہاں
گئے کہ ہم سندھی کی لاش کو سنبھالیں۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا تو پتا چلا کہ یہاں
پتھراؤ ہوا ہے۔ تھوڑی دیر میں ڈی سی صاحب اور ایس پی صاحب آگئے۔ یہ ایس پی ٹیکسن
صاحب تھے۔ ان کے بارے میں کسی نے بتایا کہ یہ وہ ایس پی ہیں جو انگلینڈ سے اپنے
دوست کی بیوی ورغلا کر لائے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ اچھے خون والا بندہ ایسا کام
نہیں کر سکتا۔ تو خیر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایس پی نے خود ہی توڑ پھوڑ شروع
کر دی اور اسی دوران بازار میں آگ لگ گئی اور فساد شروع ہوگیا تو اس واقعہ کا تو
میں خود عینی شاہد ہوں کہ کس طرح ایک انگریز نے ایک سندھی کی بازار میں ذاتی لڑائی
کو ہندو مسلم فساد بنا دیا۔ میں اس واقعے کا عینی شاہد ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ
یہ فساد پاکستان کے لئے نہیں تھا۔ یہ تو کروایا گیا تھا۔
سوال:
پیر صاحب اس واقعہ سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ انگریزوں نے کیا؟
جواب:
دیکھو بھئی اگر تو لوگوں کو خوش کرنا ہے تو اور بات ہے اور اگر سچ سننا ہے تو میری
معلومات یہی ہیں کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں ایک مسلم اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ بہت
پہلے کر چکی تھی۔ یہ فیصلہ قرارداد پاکستان منظور ہونے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ولی
خان نے جب اس بارے میں بیان دیا تو جنرل ضیا الحق نے انہیں اس معاملے پر گفتگو کی
دعوت دی۔ ولی خان نے جواباً ایک فوٹو سٹیٹ کاپی انہیں بھیجی جس میں واضح طور پر یہ
لکھا تھا کہ مسلم اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ 1940 سے پہلے ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ضیاالحق
خاموش ہوگئے۔ میں نے لندن جا کر تو تحقیق نہیں کی لیکن میری معلومات یہی ہیں۔
سوال:
پیر صاحب کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یعنی پاکستان انگریزوں نے
بنایا تھا؟
جواب: دیکھو بھئی سچ سننا ہے تو وہ تو یہی ہے وگرنہ میں بھی آپ کو کوئی کہانی سنا دیتا ہوں۔
سوال: اس کا کوئی ثبوت ہے؟
جواب: دیکھو بھئی برطانوی وزیراعظم چرچل کی پنجاب کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات سے قاہرہ میں ملاقات ہوئی تو چرچل نے کہا کہ مسلمانوں نے سلطنت برطانیہ کے لئے جو قربانیاں دی ہیں ان کی بلڈ منی کے طور پر انہیں الگ ریاست دی جائے گی۔ میں نے یہ بات سر سکندر حیات کے بیٹے سردار شوکت حیات سے پوچھی تو انہوں نے تصدیق کی کہ چرچل نے سردار سکندر حیات سے یہ بات کی تھی۔
سوال: پیر صاحب! آپ مسلم لیگ کے صدر رہے ہیں، آپ بھی وہ بات کہہ رہے ہیں جو قوم پرست کہتے ہیں۔
جواب: دیکھو بھئی سچ سے تکلیف تو ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جس طرح دیگر بااثر لوگوں کو انگریز نے مسلم لیگ میں بھیجا تھا۔ علامہ اقبال بھی اسی طرح مسلم لیگ میں آئے تھے۔ آپ یہ بتائیں کہ علامہ اقبال کس کے کہنے پر قائداعظم کے پاس گئے تھے۔ دیکھو بھئی جتنے بھی بااثر لوگ تھے، وہ انگریزوں کے کہنے پر مسلم لیگ میں آئے تھے۔
سوال:تو کیا آپ دو قومی نظریے سے انکار کرتے ہیں۔
جواب: دیکھو بھئی ایک قوم ہندو تھی جو گؤ ماتا کو پوجتی تھی دوسری قوم مسلمان تھی جو گؤ ماتا کو کھاتی تھی تو دونوں قومیں تو الگ تھیں، البتہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں لبرل معاشرے کے قیام کے لئے بنا۔
سوال: تو کیا پاکستان بنانے میں مسلم لیگ کا کردار نہیں تھا؟
جواب: مسلم لیگ بااثر لوگوں کی جماعت تھی۔ یہ عوامی جماعت نہیں تھی کہ جس کے ووٹر ہوں، بااثر لوگوں کے ماننے والے اسے ووٹ دیتے تھے۔ مسلم لیگ اس وقت سے لے کر آج تک جماعت نہیں بن سکی، نہ یہ کبھی جماعت بن سکے گی۔ ملک میں اقتدار انگریز کے وفاداروں کے ہاتھ میں رہے، وہی پالیسی آج تک چل رہی ہے، کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا”۔
اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد جناب پیر پگاڑا پر روزنامہ نوائے وقت نے خوب لے دے کی۔ اسی دوران لاہور کے ایک اخبار نویس نے جب ان سے دریافت کیا کہ وہ اپنے اس بیان پر کیا اب بھی قائم ہیں کہ پاکستان انگریز نے بنایا تھا؟ تو پیر پگارا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا:
’’اور کیا آپ کے باپ نے بنایا تھا؟‘‘
No comments:
Post a Comment