Tuesday, 7 February 2017

پنجابی زبان میں اخلاقی کردار کو بہتر کرنے اور روحانی نشو نما کی صلاحیت ھے۔

پنجابی زبان کی پرورش صوفی بزرگوں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش نے کی۔ پنجابی زبان کا پس منظر روحانی ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے ھیں۔ اس لئے پنجابی زبان میں اخلاقی کردار کو بہتر کرنے اور روحانی نشو نما کی صلاحیت ھے۔

پنجابی قوم دنیا کی نوویں سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ کی تیسری سب سے بڑی برادری ھے۔
پنجابیوں کی پاکستان میں آبادی 60 فیصد ھے۔
پنجابی زبان پاکستان کی 80 فیصد آبادی بولنا جانتی ھے۔
پنجابی زبان پاکستان کی 90 فیصد آبادی سمجھ لیتی ھے۔

اس کے باوجود پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی آج مادری زبان کے حوالے سے کم و بیش وہی مسائل درپیش ہیں جو گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں تھے۔ پنجاب کا مغرب سے متاثر طبقہ انگریزی زبان کے نفاذ پر زور دیتا ہے۔ لیکن پنجابیوں کی اشرافیہ کا رحجان اردو زبان کی طرف ھے۔ یہی وجہ ھے کہ اردو زبان کو پنجاب کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔ حالانکہ انگریزی اور اردو زبان سے عام پنجابی کو دلچسپی نہیں ھے۔ کیونکہ پنجاب کی عوامی زبان پنجابی ھی ھے۔ لیکن اس کے باوجود پنجابی زبان کے عوامی زبان ھونے کی افادیت پر پنجابیوں کی اشرافیہ توجہ نہیں دے رھی۔

پنجابیوں کی اشرافیہ اردو سے متاثر ہے اور غلامی کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتی۔ حالانکہ اردو زبان محض کاغذات کی حد تک تسلیم شدہ سرکاری اور پنجابیوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود زبان ہے لیکن پنجابیوں کی عوامی زبان نہیں بن پارھی۔ کیونکہ جس زبان کے پاس بابا فرید کی شاعری ' وارث کی ھیر' میاں محمد بخش کی سیف الملوک ' شاہ حسین اور بلہے شاہ کی کافیاں اور سلطان باھو کے بیت موجود ھوں وہ کبھی ختم نہیں ھوسکتی۔ اس لیے عام پنجابی اپنی مادری زبان پنجابی کو اپنائے ھوئے ھے اور نسل در نسل منتقل کر رھا ھے۔ لہٰذا پنجابی زبان پورے پنجاب میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ اردو صرف پنجاب کی تسلیم شدہ سرکاری اور پنجابیوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود ھے۔

فرانس کے نارمنز نے گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کی۔ اس فتح کے بعد انگریزوں کے مذہبی طبقے نے لاطینی زبان کے نفاذ پر زور دیا جبکہ انگریزوں کی اشرافیہ کا رحجان فرانسیسی زبان کی طرف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسی زبان کو برطانیہ کی سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔ حالانکہ لاطینی اور فرانسیسی زبان سے عام انگریز کو دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ برطانیہ کی عوامی زبان انگریزی ھی تھی۔ لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان کے عوامی زبان ھونے کی افادیت پر انگریزوں کی اشرافیہ نے توجہ نہ دی۔

یہ صورت حال کم و بیش تین سو سال چلی۔ فرانسیسی زبان محض تسلیم شدہ سرکاری اور انگریزوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود رہی لیکن انگریزوں کی عوامی زبان نہ بن سکی۔ عام انگریز نے اپنی مادری زبان انگریزی کو اپنائے رکھا اور نسل در نسل منتقل کیا۔

چودھویں صدی کے آغاز تک برطانیہ میں فرانسیسی اثرو رسوخ کم ہو گیا اور برطانیہ نے آزادی کے لئے فرانس سے لگ بھگ سو سالہ جنگ لڑی۔ برطانیہ میں 1362 میں ایک قانون پاس کیا گیا کہ اب سے عدالتی کارروائی فرانسیسی کے بجائے انگریزی زبان میں ہو گی۔

اس طرح برطانوی قوم نے نہ صرف اپنی شناخت کو زندہ رکھا بلکہ اپنی زبان کو بھی معدوم ہونے سے بچا لیا اور آج دنیا میں انگریزی سب سے زیادہ بولی ' سمجھی اور سیکھی جا رہی ہے اور عالمی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

پنجابیوں کی بھی کوشش ھے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے پنجابی زبان کو پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان ھونے کا قانون بنوا لیا جائے۔ پنجاب کی حکومت کی طرف سے جب یہ قانون پاس ھو گیا کہ اب پنجاب کے اسکولوں میں تعلیم پنجابی زبان میں دی جائے گی اور پنجاب کے دفتروں میں کارروائی اردو کے بجائے پنجابی زبان میں ہو گی تو پہلے سے ھی دنیا میں بولی جانے والی نوویں بڑی زبان ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان نے عالمی سطح پربہت زیادہ اھمیت اختیار کرلینی ھے۔ جسکی وجہ سے پنجابی زبان نے دنیا میں سب سے زیادہ بولی ' سمجھی اور سیکھی جانے والی عالمی زبانوں میں سے ایک اھم زبان کا درجہ حاصل کرلینا ھے اور پنجابی قوم نے بین الاقوامی سطح پر مزید عزت اور وقار حاصل کرلینا ھے۔

پنجابی زبان کے بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کی تمہید میں کہا ھے کہ:

1۔ اس سے پہلے بھی ھم آرٹیکل 251 کے مندرجات کی اھمیت کی طرف توجہ دلوا چکے ھیں اور سرکاری امور میں قومی زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اھمیت کو اجاگر کرچکے ھیں۔

2۔ عدالت نے مشاہدہ کیا ھے کہ حکومتِ پنجاب ' پنجابی زبان کو اس کا مقام دلوانے میں ناکام رھی ھے اور اس زبان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

3۔ دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضہ ھے کہ ریاست ھر مرد و زن شہری کی زبان کو چاھے وہ قومی ھو یا صوبائی ' ایک قابلِ احترام زبان کا درجہ ضرور دے۔

4۔ جب ریاست اس بات پر مصر ھوجائے کہ وہ زبانیں جو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت بولتی ھے ' اس قابل نہیں ھیں کہ ان میں ریاستی کام انجام پا سکے تو پھر ریاست ان شہریوں کو حقیقی معنوں میں ان کے انسانی وقار سے محروم کر رھی ھے۔

5۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انفرادی اور اجتماعی وقار اور تعلیم باھم مربوط ھیں۔ تعلیم ' جو ایک بنیادی حق ھے ' براہ راست زبان سے تعلق رکھتی ھے۔


6۔ یونیسکو جیسا ادارہ بھی ' جو اقوامِ متحدہ کا تعلیمی ' سائنسی اور ثقافتی ادارہ ھے ' اس بات کی تائید کرتا ھے کہ بچے کو اس کی اپنی زبان میں ھی تعلیم دی جانی چاھیئے کیونکہ اپنی زبان ھی وہ زبان ھے جو اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ھے اور اسی کے زیرِسایہ پروان چڑھتا ھے۔ لیکن حکومت اس اھم معاملے سے بے نیاز دکھائی دیتی ھے۔

No comments:

Post a Comment