افغانستان اور پاکستان میں پشتون کی کل آبادی 4 کروڑ 98 لاکھ
ھے۔ صرف ایک کروڑ پشتون افغانستان میں بچے ھیں جبکہ 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون پاکستان
میں آچکے ھیں۔ جن میں سے 39 لاکھ 50 ھزار پشتون اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور
کراچی میں ھیں۔ 3 کروڑ 28 لاکھ 50 ھزار پشتون فاٹا ' بلوچستان اور خیبر پختونخوا
میں ھیں۔
افغانستان کے ایک کروڑ پشتونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ افغانستان
میں پشتونوں کی تعداد کم ھوجانے کی وجہ سے تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان نے افغانستان
کے پشتونوں پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔
فاٹا ' بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں رھنے والے پشتونوں
کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ ایک تو معاشی طور پر مستحکم علاقوں پر ابھی تک ھندکو
پنجابیوں کا کنٹرول ھے اور دوسرا ھندکو پنجابیوں کی پشتونوں کو خیبر
پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد میں روز با روز اضافہ ھوتا جارھا ھے۔ بلوچستان
میں پشتونوں کو بلوچوں نے اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھا
ھوا ھے۔ فاٹا میں معاشی وسائل نہیں ھیں۔
پنجاب ' سندھ اور کراچی میں رھنے والے پشتونوں کے ساتھ مسئلہ یہ
ھے کہ قلیل تعداد میں ھونے کی وجہ سے پنجاب میں پنجابی ' سندھی میں سندھی اور
کراچی میں مھاجر پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم نہیں کر سکتے۔ اس
لیے پنجاب ' سندھ اور کراچی میں اپنی تعداد بڑھانے کے لیے اگر خیبر
پختونخوا اور بلوچستان سے پشتونوں کو پنجاب ' سندھ اور کراچی میں
لاتے ھیں تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پشتونوں کی تعداد کم
ھوجاتی ھے۔ جسکی وجہ سے خیبر پختونخوا میں ھندکو پنجابیوں کی پشتونوں
کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد کامیاب ھوتی ھے جبکہ بلوچستان میں پشتونوں
پر بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں مزید اضافہ ھوتا ھے۔
پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ پشتونوں نے اپنی دھرتی افغانستانی کو
ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری
قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے قوم
پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار
دیا اور مقبوضہ قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی
اور نا انصافی کرتی ھے۔
1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2
اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں '
بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان '
نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری
پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ
صوبہ بنا دیا۔
شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن
2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز
پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر
پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس
صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے آکر پشتون قبضہ کرتے رھے
ھیں۔
بحرحال پشتونوں کے اپنی دھرتی افغانستانی کو ترقی دے
کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل
کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ اس وقت 4 کروڑ 98 لاکھ پشتون
' افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ اور
کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے پشتونوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر
پختونخوا میں ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں بلوچوں
کے ساتھ ' پنجاب میں پنجابیوں کے ساتھ ' سندھ میں
سندھیوں کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں کے ساتھ سیاسی
' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ اس لیے پشتونوں کا نہ صرف اپنے وطن افغانستان
بلکہ بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بھی سیاسی
' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔
No comments:
Post a Comment