Monday, 25 September 2017

لاھور قراداد 1940 ء کا مسودہ کیوں اور کیسے وجود میں آیا؟

برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغرب فرنٹیئر صوبہ (سرحد) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ انکے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو انکے موقف کی حمایت کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟

آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم حلقوں میں '' دو قومی نظریہ '' کو پذیرائی حاسل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے انتخابات میں '' دو قومی نظریہ '' کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

1937 کے انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور NWFP میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ طور پر '' دو قومی نظریہ '' کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔

سال 1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے '' دو قومی نظریہ '' کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بنگالی قوم پرست اے ۔ کے فضل الحق کی طرف سے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔

تاھم فضل الحق کی طرف سے اجلاس میں قرارداد پیش کرنے سے پہلے مسلم لیگ کے رھنما محمد علی جناح نے بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کو جذباتی کرنے کی کوشش کی۔ لاھور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ھوئے انہوں نے کہا؛

"مسلمانان (مسلمان) فاتح ' تاجر اور مبلغین کے طور پر بھارت آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور تہذیب لائے تھے۔ انہوں نے بھارت میں اصلاح اور اصلاحات کیں. آج، (برطانوی) بھارت میں سو ملین مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ ھیں۔ ھم زبان اور ثقافت ' تہذیب اور تمدن ' آرٹ اور فن تعمیر ' نام اور کیلنڈر ' قدر اور تناسب ' قوانین اور اخلاق ' استعداد اور امتیاز ' تاریخ اور روایات ھیں۔ ھمارے پاس زندگی کا اپنا منفرد نقطہ نظر ھے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ھم ایک قوم ھیں۔

مسلم قومیت کے اس طرح کے پرجوش الفاظ کے باوجود نہ جناح نے اور نہ ھی مسلم لیگ کے کسی دوسرے رھنما نے '' دو قومی نظریہ '' کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کی قراداد پیش کی۔ کیونکہ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو 1937 کے انتخابات میں '' دو قومی نظریہ '' کی بنیاد پر شکست کی تازہ یادوں کی وجہ سے مسلم اکثریت کے صوبوں کی قیادت سے ایسی مانگ کے لئے حمایت کا یقین نہیں تھا۔

اس کے بجائے مسلم اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو اپنایا۔ قرارداد مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھی:

1۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیشن مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ اور شوریٰ کے اقدام کی منظوری اور توثیق کرتے ھوئے' جیسا کہ ان کی قرارداد مورخہ 27 اگست ' 17 و 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1840ء سے ظاھر ھے ' آئینی قضیے میں اس امر کے اعادے پر زور دیتاہے کہ 1935ء کے حکومت ھند ایکٹ میں تشکیل کردہ وفاق کی منصوبہ بندی ملک کے مخصوص حالات اور مسلم ھندوستان دونوں کے لیے بالکل ناقابلِ عمل اور غیر موزوں ھے۔

2۔ یہ (سیشن) مزید براں پرزور طریقے سے باور کرانا چاھتا ھے کہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے وائسرائے کا اعلامیہ مورخہ 18 اکتوبر 1939ء ' حکومتِ ھند ایکٹ 1935ء کی اساسی پالیسی اور منصوبے کے ضمن میں اس حد تک اطمینان بخش ھے ' جس حد تک مختلف پارٹیوں ' مفادات اور ھندوستان میں موجود گروھوں کی مشاورت کی روشنی میں اس پر نظرِ ثانی کی جائے گی۔ مسلم ھندوستان تب تک مطمئن نہیں ھو گا جب تک مکمل آئینی منصوبے پر نئے سرے سے نظرِثانی نہیں کی جائے گی اور یہ کہ کوئی بھی ترمیم شدہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے صرف تبھی قابلِ قبول ھو گا اگر اس کی تشکیل مسلمانوں کی مکمل منظوری اور اتفاق کے ساتھ کی جائے گی۔

3۔ قرار پایا ھے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطۂ نظر ھے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ھو گا ' جب تک وہ ذیل کے بنیادی اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا۔ وہ یہ کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔

4۔ یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں؛ اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔

5۔ یہ سیشن مزید برآں عاملہ کمیٹی کو ان بنیادی اصولوں کے مطابق ' دفاع ' خارجہ امور ' مواصلات ' کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کے لحاظ سے مفروضے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے ' آئین سازی کی اسکیم وضع کرنے کا اختیار دیتا ھے۔

مندرجہ ذیل مکمل فہرست 25 نامزد کردہ اراکین کی ھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940 کے اجلاس میں جو 21 اور 24 مارچ 1940 کے درمیان منعقد ھوا ' قراردادِ لاھور کا مسودا تیار کیا۔

01۔ قائد اعظم محمد علی جناح
02۔ نوابزادہ لیاقت علی خاں
03۔ سر سکندر حیات خان
04۔ سر شاهنواز خان ممدوٹ
05۔ امیر احمد خاں راجہ صاحب محمود آباد
06۔ مولوی اے ۔ کے فضل الحق
07۔ سر عبد اللہ هارون
08۔ الحاج سر خواجه ناظم الدین
09۔ امجدی بانو بیگم
10۔ مولانا محمد اکرم خاں
11۔ چودھری خلیق الزماں
12۔ نواب محمد اسماعیل خاں
13۔ سر کریم بھائی ابراھیم
14۔ علی محمد خاں دھلوی
15۔ قاضی محمد عیسی
16سردار اورنگزیب خان
17۔ عبدالمتین چوھدری
18۔ عاشق محمد وارثی
19۔ حاجی عبدالستار اسحاق سیٹھ
20۔ ایس ایم شریف
21۔ سید عبدالرؤف شاہ
22۔ محمد لطیف الرحمان
23۔ عبدالرحمان صدیقی
24۔ ملک برکت علی
25۔ سعد اللہ خان عمارزئی

No comments:

Post a Comment