مولوی
فضل الحق نے 23 مارچ کو قرار داد لاھور پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ اس
وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ھوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ھوگا ' جب تک
ایک دوسرے سے ملے ھوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ھو۔
قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ھے '
جیسے کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ' انہیں یکجا کر کے ان میں
آزاد مملکتیں قائم کی جائیں ' جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیتِ اعلی
حاصل ھو۔
مولوی
فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری
خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ' سرحد سے سردار اورنگ زیب ' سندھ سے
سر عبداللہ ھارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی
اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل
سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاھور کو جماعت کے آئین میں
شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ھوئی۔ لیکن اُس وقت
بھی ان علاقوں کی واضح نشاندھی نہیں کی گئی تھی ' جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں
کا مطالبہ کیا جارھا تھا۔
پہلی
بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندھی 7 اپریل سن 1946 کو دلی کے تین
روزہ کنونشن میں کی گئی۔ جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے
شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم
لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جس کا مسودہ مسلم
لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوھدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا
تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندھی
کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ' سرحد ' سندھ
اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ھے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ھوا تھا۔
یہ
بات بے حد اھم ھے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر
دیا گیا تھا۔ جو قراردادِ لاھور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان کی
واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔
غالباً
بہت کم لوگوں کو اس کا علم ھے کہ مولوی فضل الحق کی 23 مارچ کو پیش کردہ قراردادِ
لاھور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے
تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی
اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔
سر
سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد
پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی
سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں
واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔
سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب
کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے
بنیادی طور پر مختلف ھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ھندوستان میں ایک طرف ھندو راج اور
دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ھیں اور وہ ایسی تباہ کن تقسیم
کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔ سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942
میں 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت
کے اٹھتے ھوئے حصار سے نجات مل گئی۔
سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شھید سہروردی نے پیش
کی اور یو پی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔
قراردادِ لاھور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ھوئے کیونکہ
انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔
دلی کنونشن میں بنگال کے رھنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور
یہ دلیل پیش کی کہ یہ قراردادِ لاھور کی قرارداد سے بالکل مختلف ھے۔ جو مسلم لیگ
کے آئین کا حصہ ھے- ان کا کہنا تھا کہ قراردادِ لاھور میں واضح طور پر دو مملکتوں
کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد
میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔
ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات
میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے
قیام کی بات ھورھی ھے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا
ھے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی
حتمی ثالث ھوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ھوگا۔
لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت
جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ھورھا تھا ' بر صغیر میں مسلمانوں کی دو
آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔
25 سال کی سیاسی اتھل پتھل و کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباھی کے
بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ
قراردادِ لاھور کی صورت میں آج بھی محفوظ ھے۔
No comments:
Post a Comment