Monday, 4 September 2017

بلوچ نے براھوئی ' پنجابی اور سماٹ کی زمین پر قبضہ کیسے کیا؟


کردستانی بلوص قبائل نے پندرھویں صدی عیسوی میں میر شیہک کی سر کردگی میں وادی سندھ کی تہذیب کے مھرگڑہ کے علاقے مکران میں قدم رکھا اور مکران کے حکمراں بدرالدین کے ساتھ جنگ کرکے علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ اسکے بعد میر شیہک نے بلیدہ سے چل کر براھوئیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486ء میں قلات کو فتح کرلیا۔ جو براھوئی ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ قتل کردیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔ اس زمانے میں سندھ کی سرحدیں سبی تک پھیلی ھوئی تھیں۔ سندھ پر جام نندو کی حکومت تھی اور امیر بہادر جام نندو کا نائب مقرر تھا۔ جام نندو کے زمانہ میں ھرات سے سلطان حسین بایقرا کا حُکم چلتا تھا۔ 1487ء میں سلطان حسین کی فوج نے سندھ کے سرحدی شہر سبی پر حملہ کیا جہاں ترک ارغونوں کے حملے میں سندھی فوج نے شکست کھائی اور سبی پر ھراتیوں کا قبضہ ھوگیا اور محمد ارغون (شاہ بیگ ارغون کا بھائی) عملدار کے طور پر مقرر ھوا۔ لہٰذا جام نندو نے ٹھٹھہ سے دریا خان کی سپہ سالاری میں لشکر کو سبی بھیجا۔ 1488ء میں ارغونوں اور دریا خان کی فوجوں کے درمیاں جنگ ھوئی۔ جس میں سلطان محمد ارغون مارا گیا اور سبی پر جام نندو کی حکمرانی پھر سے بحال ھوگئی تو میر شہک نے سبی فتح کرنے کے ارادے سے بولان خان رند کو اس سمت روانہ کیا کہ؛ حملے کے لیے مناسب راستوں کا کھوج لگائے۔ بولان خان رند کے نام پر ھی درہ بولان کا نام ھے جس کے وسط میں آج کا مچھ شہر آباد ھے۔ میر شہک نے 1488ء میں ھی سبی پہنچ کر سبی پر قبضہ کرلیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور وھیں ضلع کچھی میں ان کا مقبرہ بھی ھے۔

میر شہک سے 1468ء میں میر چاکر پیدا ھوا۔ سبی کی فتح کے وقت اس کی عمر 20 سال تھی۔ میر شہک کی وفات کے بعد کردستانی بلوص علاقوں کا حکمران سردار چاکر بنا۔ میر چاکر خان کی سرکردگی میں کردستانی بلوص قبائل مختلف راستوں سے ھوتے ھوئے بلوچستان کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئے۔  سردار چاکر خان رند نے خضدار فتح کیا ، درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو اپنا مستقر بنا لیا۔ لاشاری قبیلہ نے میر گواھرام کی سرکردگی میں گنداوا کو مستقر بنا لیا۔ سردار چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان کردستانی بلوص قبائل کے قبضے میں آگیا۔ سبی کردستانی بلوص قبائل کا مرکز بن گیا اور میر چاکر کو کردستانی بلوص وفاق کا سردار اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ دراوڑی زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے "اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ھے. جسکے معنی "والا" ھے. "بر- اوک" کے لفظ کا مفہومی معنی "نیا آنے والا" یعنی " نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. کردستانی بلوص قبائل جب پندھرویں صدی عیسوی میں براھوئی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو براھوئی انکو "بر- اوک" کہتے تھے۔ اس لیے کردستانی بلوص قبائل " بلوص " سے " بروک" پھر " بروچ" اور پھر "بلوچ" بن گئے۔

میر شہک نے اپنے دور میں باھم برسر پیکار بروچ یا بلوچ قبائل کو ایک قوم کی حیثیت سے متحد کرنے کی کوشش کی اور اس میں خاصا کامیاب بھی ھوا۔ میر چاکر نے اس ضمن میں مزید جدوجہد کی اور اسے نمایاں کامیابی ھوئی۔ اسے اس کے ھم مرتبہ سرداروں میں سرخیل ضرور سمجھا گیا لیکن بادشاہ کی حیثیت نہ دی گئی۔ یہ قومی اتحاد زیادہ عرصے تک نہ رہ سکا۔ کیوں کہ؛ میر چاکر رند اپنے کسی ھمسر کو برداشت نہ کر سکتا تھا اور میر گواھرام لاشاری کسی کو اپنے سے بر تر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے 1489ء میں رندوں اور لاشاریوں کی لڑائی کا سلسلہ شروع ھوا۔ آپس کی چھوٹی موٹی جھڑپیں بڑھ کر سنگین صورت اختیار کرکے جنگ کی شکل اختیار کر گئیں۔ جنگ میں لاشاریوں کو شکست ھوئی تو انہوں نے ملتان کے لنگاھوں سے مدد طلب کی۔ میر چاکر رند نے گواھرام اور لاشاریوں کو پوری طرح کچلنے کے لیے قندھار کے ترک ارغونوں سے معاھدہ کیا کہ؛ اگر وہ ان کے ساتھ مل کر لڑیں گے اور فتح نصیب ھوئی تو وہ ترک ارغونوں کو مناسب معاوضہ دیں گے۔ اس لیے ترک ارغونوں نے میر چاکر رند کی مدد کرنے کے لیے اپنا لشکر سبی بھیج دیا۔

ادھر 1508ء میں جام نظام عرف جام نندو کی وفات کے بعد ان کا بیٹا جام فیروز تخت پر بیٹھا تو عمر میں چھوٹا ھونے کی وجہ سے سلطنت کے سارے معاملات دریا خان نے سنبھالے۔ یہ بات جام فیروز کی ماں مدینہ کو ٹھیک نہیں لگی۔ جام نندو کی دریا خان سے شفقت دریا خان کے لیے ایک امتحان بن گئی۔ وہ نہ اس خاندان کو چھوڑنا چاھتا تھا۔ نہ ان سے لڑنا چاھتا تھا اور نہ ھی دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاھتا تھا۔ جبکہ جام نندو کے خاندان میں غلط فہمیوں کی بنیاد پر شک و شبہات کی خاردار جھاڑیاں اُگنے لگیں کہ کل کلاں کو دریا خان نے تخت پر قبضہ کر لیا تو کیا ھوگا؟ جس کی وجہ سے دریا خان اجازت لے کر سیہون کے قریب اپنی جاگیر "گاھو" میں آ کر رھنے لگا تو جام صلاح الدین نے سلطان مظفر گجراتی کی مدد سے ٹھٹھہ پر حملہ کرکے مارچ 1512ء میں سندھ کے امیروں اور گجراتی لشکر کی مدد سے ٹھٹھہ پر قبضہ کرلیا اور جام فیروز بغیر کسی مزاحمت کے تخت گاہ سے دستبردار ھو گیا تو ماں بیٹے دریا خان کے پاس گاھو پہنچے۔ دریا خان نے اپنے ظرف کا مظاھرہ کیا اور انکار نہ کر سکا۔ دریا خان نے بکھر اور سیہون سے لشکر اکٹھا کر کے ٹھٹھہ پر کامیاب حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں جام فیروز 12 اکتوبر 1512ء کو پھر تخت نشین ھوا۔ جبکہ جام صلاح الدین جو سمہ خاندان کے مشہور بادشاہ جام سنجر کا بیٹا تھا۔ وہ فقط آٹھ ماہ ھی حکومت کر سکا لیکن دریا خان کے ساتھ پھر سے وھی پرانی روش اختیار کی گئی۔ جام فیروز کی والدہ اب ایک بار پھر سے دریا خان سے چھٹکارہ چاھتی تھی۔ اس لیے 1516ء میں جام فیروز کی ماں قندھار جا کر شاہ بیگ ارغون کو سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دے آئی۔ ارغونوں کے لیے یہ ایک شاندار موقعہ تھا۔ اُن کے دل و دماغ میں سبی والے معرکے میں بہے خون کا رنگ ابھی سُرخ تھا۔ شاہ بیگ کے دل پر بھائی کے قتل کا زخم تازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے میر چاکر کی مدد کرنے کے لیے سبی میں موجود اپنے لشکر کے ذریعے چھوٹے چھوٹے حملے  شروع کروا دیے اور 1518ء کے جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں سبی میں موجود اپنے لشکر میں سے ھی ھزار سوار تیار کر کے گاھو کے گاؤں باغبان محلے پر حملہ کر کے ایک ھزار اونٹ اپنے ساتھ لے گئے جو رات کو رھٹوں میں بندھے ھوئے باغات کو پانی پہنچا رھے تھے۔ ارغونوں کے حملوں کی وجہ سے سارے ملک میں ایک افراتفری سی پھیل گئی۔ مگر جام فیروز ٹھٹھہ چھوڑ کر جنوب کی طرف پیر پٹھو چلا گیا۔

ترک ارغونوں نے میر چاکر رند کی مدد کرتے ھوئے 1519ء میں ایک خونریز جنگ میں لاشاریوں کو شکست دی اور وہ تتربتر ھو گر پنجاب ' سندھ اور گجرات کی طرف نکل گئے۔ سبی فتح کے بعد ترک ارغونوں نے علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور سبی پر قبضہ کرلیا تو میر چاکر نے سبی اور میوند کے درمیان کے علاقے میں رھائش اختیار کرلی اور رند آپس میں دست و گریباں ھو گئے۔ جبکہ ترک ارغونوں نے سبی پر قبضہ کرنے بعد ٹھٹھہ پر بھرپور حملے شروع کردیے اور 22 دسمبر 1520ء کو ساموئی (مکلی سے شمال کی طرف) ارغونوں اور دریا خان کے لشکروں میں جنگ ھوئی۔ ارغونوں کو فتح حاصل ھوئی۔ سبی کے علاوہ ٹھٹھ پر بھی ترک ارغونوں کا راج قائم ھوگیا۔ ٹھٹھہ کی فتح کے بعد شاہ بیگ ارغون نے قیدی سپہ سالار دریا خان کو اپنی تلوار سے خود قتل کیا۔ جام فیروز ' شاہ بیگ ارغون کے سامنے پیش ھوا اور سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ سیہون سے جنوب کی طرف کا حصہ جام فیروز کو دیا گیا اور سندھ کے شمالی حصے پر ارغونوں کا قبضہ ھوگیا۔

پنجاب پر 1526ء سے مغلوں کے قبضے کے بعد مغل بادشاہ بابر کے خلاف بابا گرو نانک کی سربراھی میں پنجابیوں کی مزاحمتی جدوجہد کی وجہ سے مغل بادشاہ ھمایوں کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں 1540ء میں اپنا تخت کھو کر ایران جانا پڑا۔ ایرانی بادشاہ سے تعاون لیکر شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ سوری کو شکست دیکر 1555ء میں دھلی کا تخت سمبھالنے کے بعد سردار چاکر خان رند کی سر کرد گی میں چالیس ھزار بلوچوں کو پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے وادیء سندھ کی تہذیب کے ھڑپا کے میدانی علاقے میں آباد کیا جو پنجابی علاقہ تھا۔ ھمایوں نے میر چاکر رند کو اوکاڑہ کے قریب ست گھرہ نامی مقام پر زرخیز زرعی جاگیر عطا کی۔ میر چاکر رند نے اپنے لشکر کے ساتھ پنجاب میں سکونت اختیار کی اور مغل بادشاہ اکبر کے دور میں اس کا انتقال 1565ء کو ھوا اور مزار ست گھرہ میں واقع ھے۔ اکبر بادشاہ کے خلاف دلا بھٹی کی سربراھی میں پنجابیوں کی مزاحمتی جدوجہد کی وجہ سے مزید بلوچوں کو بھی مغلوں کی سرپرستی ملنے لگی اور انہیں دلا بھٹی کے زیرِ اثر علاقوں کے نزدیک بڑی بڑی جاگیریں دی جانے لگیں تو بلوچوں کی پنجاب کے جنوبی علاقوں میں آبادگاری میں مزید اضاٖفہ ھوتا گیا اور بلوچوں کا سب سے بڑا پڑاؤ جنوبی پنجاب کا ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ بن گیا۔

نصیر خان نوری براھوئی کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز براھوئی سرداروں میں ھوتا ھے۔ وہ میر عبداللہ خان براھوئی کے تیسرے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان براھوئی ' احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا گیا۔ جب افغانستان کے بادشاہ کے لیے احمد شاہ ابدالی کا انتخاب ھوا تو میر نصیر خان نے براھوئی قوم کی نما ئند گی کرتے ھوئے احمد شاہ ابدالی کے حق میں رائے دی ۔ کچھ دن بعد نصیر خان براھوئی کے بھائی محبت خان براھوئی نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ ابدالی کا اعتماد کھو دیا۔ 1749ء میں احمد شاہ ابدالی کے حکم سے میر نصیر خان براھوئی اپنے بھائی کی جگہ قلات کا حکمراں بنا۔ نصیر خان براھوئی کا شمار احمد شاہ ابدالی کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ھونے لگا۔  انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رھا اور نصیر خان براھوئی کی چچازاد بہن کا نکاح احمد شاہ ابدالی کے بیٹے تیمور شاہ سے ھوا جو کہ 1758-1757ء تک پنجاب کا حکمراں رھا۔ لیکن تیمور شاہ کی حکمرانی کے ختم ھو جانے کی وجہ سے 1765ء میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا تو میر نصیر خان بارہ ھزار کا لشکر لے کر براستہ گنداوہ احمد شاہ ابدالی کی مدد کو پنجاب روانہ ھوا اور پنجاب کی فتح کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنے بیٹے تیمور شاہ کو دوبارہ پنجاب کا حکمراں بنا دیا۔

اس صورتحال میں بلوچ قبائل کو ایک تو پنجاب سے مغلوں کی حکومت کا 1751ء سے خاتمہ ھوجانے کی وجہ سے پنجاب میں مغل بادشاھوں کی 196 سالہ سرپرستی سے محروم ھونا پڑا۔ دوسرا 1751ء سے قلات کا حکمراں نصیر خان براھوئی بن گیا۔ تیسرا 1765ء سے نصیر خان براھوئی کی چچازاد بہن کا شوھر احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تیمور شاہ پنجاب کا حکمراں بن گیا۔ جسکی وجہ سے نہ ٖصرف قلات بلکہ پنجاب میں بھی بلوچ قبائل کی مشکلات میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا لیکن سندھ میں چونکہ مغلوں کے نامز کردہ عربی نزاد عباسی کلھوڑا کی حکومت تھی۔ اس لیے نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب سے بھی بلوچ قبائل نے موھنجو دڑو کے میدانی علاقے میں قدم رکھا ' جو سماٹ علاقہ تھا اور عباسی کلھوڑا کی فوج میں بھرتی ھونا شروع کردیا۔ لیکن 1783ء میں عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرکے سندھ پر قبضہ کرلیا۔ تالپور بلوچ قبائل کے وادیء سندھ کی حکمرانی سمبھالنے کے بعد مری ' بگٹی ' کھوسہ ' بجارانی ' سندرانی ' مزاری ' لنڈ ' دریشک ' لغاری ' گورچانی ' قیصرانی ' بزدار ' کھیتران ' پڑ ' رند ' گشکوری ' دشتی ' غلام بولک ' گوپانگ ' دودائی ' چانڈیئے ' ٹالپر اور بہت سے چھوٹے چھوٹے قبائل کے خاندانوں نے پنجاب اور بلوچستان سے سندھ کے علاقے میں آکر اپنی جاگیریں بنانا شروع کردیں اور اب تک سندھ کے سماٹ سے ان کی ملکیت بلوچ نے چھین رکھی ھے۔

No comments:

Post a Comment