Monday, 16 July 2018

قوم کی حالت لوگوں کی عادتوں کے مطابق ھوتی ھے۔

إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (13:11)
الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ ان عادتوں کو نہ بدلے جو اس میں ھیں۔ (11-13)

زوال پذیر قوموں میں زیادہ تر لوگوں کی خواھش ھوتی ھے کہ انکے پاس پیسہ ھو اور پاور ھو تاکہ لوگ انکے آگے پیچھے پھریں اور انکے سامنے جی جی کریں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگوں کی عادت ھوتی ھے کہ وہ پیسے والے اور پاور والے لوگوں کو اھمیت دیتے ھیں۔ وہ پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرتے ھیں اور پاور والے لوگوں کے آگے جی جی کرتے ھیں۔

لوگوں کے پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کی وجہ سے پھر سیاست بھی پیسے والے لوگ ھی کرتے ھیں۔ اس لیے حکومت میں بھی پھر زیادہ تر پیسے والے لوگ آجاتے ھیں۔ جب ان پیسے والے لوگوں کو حکومت کی پاور بھی مل جاتی ھے تو پھر لوگ انکے آگے پیچھے پھرنے کے ساتھ ساتھ انکے سامنے جی جی بھی کرنے لگ جاتے ھیں۔

زوال پذیر قوموں میں علم والے لوگ بھی ھوتے ھیں۔ اگر لوگ پیسے کے بجائے علم والے لوگوں کی طرف دھیان کرنا شروع کردیں تو پھر لوگ علم والے لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جسکی وجہ سے لوگوں میں پیسے والے لوگوں کی اھمیت کم ھوجاتی ھے۔ اس لیے لوگ پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کے بجائے علم والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنا شروع کردیتے ھیں۔ اس کی وجہ سے پیسے والے لوگ سیاست کرکے حکومت کی پاور بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ جسکی وجہ سے پھر لوگ نہ صرف پیسے والے لوگوں کے آگے پیچھے نہیں پھرتے بلکہ انکے سامنے جی جی بھی نہیں کرتے۔

لوگوں کے علم والے لوگوں کی طرف دھیان دینے کی وجہ سے ' علم والے لوگوں کو عزت دینے کی وجہ سے ' علم والے لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کی وجہ سے ' علم والے لوگ سیاست بھی کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جس کی وجہ سے حکومت میں بھی علم والے لوگ آجاتے ھیں۔ جب ان علم والے لوگوں کو حکومت کی پاور بھی مل جاتی ھے تو پھر عام لوگ بھی پاور والے لوگوں کے آگے جی جی کرنے کی عادی ھونے کی وجہ سے ان علم والے لوگوں کے آگے جی جی کرنا شروع کردیتے ھیں۔ جب کہ الله قوم کی حالت بدلنے کے لیے قوم کو زوال سے نکالنا شروع کردیتا ھے اور عروج دینا شروع کردیتا ھے۔ اس لیے علم والے لوگوں کے حکومت کرنے کی وجہ سے ملک ترقی کرنا شروع کردیتے ھیں اور قوم خوشحال ھونا شروع ھوجاتی ھے۔

قَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (2:247)

ان سے ان کے نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ بولے کہ؛ وہ ہم پر بادشاہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ جبکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہی کے حقدار ہیں۔ کیونکہ اسے مالی صلاحیت نہیں دی گئی ہے۔ نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر اسے منتخب کرلیا ہے اور اس کو علم میں فراوانی اور جسمانی طاقت زیادہ عطا کی ہے اور الله اپنا ملک جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ وَاسِعٌ عَلِيمٌ  ہے۔(247-2)

No comments:

Post a Comment