Sunday, 15 July 2018

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا

مضمون کی ابتدا حبیب جالب کے ان اشعار سے کرنا ضروری ھے؛

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا

سندھ بلوچستان تو کب سے روتے ھیں
اور اھلِ پنجاب ابھی تک سوتے ھیں

جن کو ذات کا غم ھے کب وہ مانے ھیں
بے بس لوگوں پر بندوقیں تانے ھیں

آنکھیں ھیں پر آب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستاں چلا

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ھے اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کی اکثریت چونکہ ذراعت پیشہ ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی اکثریت پنجاب کے دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے شھروں میں رھتی ھے۔ زیادہ تر ذراعت اور مال مویشیوں کے پیشے سے وابسطہ ھے یا پھر نوکریاں اور چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ھے۔ اس لیے ان میں بین الاقوامی یا قومی تو کیا صوبائی سطح کا بھی سیاسی شعور نہیں ھے۔ صرف مقامی سطح کا سیاسی شعور ھے۔ ان برادریوں کی دلچسپی بھی قومی یا صوبائی کے بجائے مقامی سیاست میں زیادہ ھوتی ھے۔ اس لیے برادریوں کی بنیاد پر آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی رھتی ھیں۔

جب کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پنجابی قوم کی شیخ اور کشمیری برادریاں بڑی تعدا میں ھیں۔ پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی کثیر تعداد ایک تو دیہی علاقوں سے جاکر شھروں میں آباد ھوئی ھیں یا اب بھی آباد ھورھی ھیں اور دوسرا آپس کے برادری کے تنازعات کا شکار رھتی ھیں۔ اس لیے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا ھے۔ جو کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں اور مذھبی تنظیموں پر بھی کنٹرول رکھتے ھیں اور پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں جاکر وھاں بھی کنٹرول رکھتے ھیں۔ اسی لیے صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رھتے ھیں۔ پنجابیوں کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ کرنے میں بھی ان کی اجارہ داری ھے۔

ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت ‘ گجر ’ کشمیری اور شیخ برادریاں جب تک صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح کا بھی سیاسی شعور حاصل نہیں کرتیں اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں ' مذھبی تنظیموں اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکریسی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا کنٹرول ختم کرکے اپنا کنٹرول قائم کرکے پنجاب کے عوام کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ اپنے مزاج اور اپنے مفاد کے مطابق کرنا شروع نہیں کرتیں۔ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم رھنی ھے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابی عوام اور پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نظریاتی تربیت اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے مزاج اور مفاد کے مطابق کرتے رھے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد بھی پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنی زبان پنجابی کا احترام کرنے کے بجائے اترپردیش کی زبان اردو کے اسیر ھیں۔ اپنی پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے گنگا جمنا کی ثقافت کے زیرِ اثر ھیں۔ اپنی پنجابی تہذیب پر فخر کرنے کے بجائے لکھنو کی تہذیب کے پیرو کار ھیں۔

پنجابی عوام تو اب اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرنے لگے ھیں لیکن پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ابھی تک انکے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو جسمانی طور پر پنجابی کہا جاسکتا ھے لیکن ذھنی طور پر " اترپردیشی " بنے ھوئے ھیں۔

جب تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت کے چنگل سے خود کو نہیں نکالتے۔ اس وقت تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سندھی ' بلوچ ' پٹھان عوام تو کیا پنجابی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق بھی امور انجام نہیں دے پائیں گے۔ سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے پاکستان کی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق امور انجام نہ دینے کہ وجہ سے بنگالی قوم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرکے خود کو پاکستان سے الگ کرلیا۔ جبکہ سندھی ' بلوچ اور ُپٹھان اسٹیبلشمنٹ سے ناراض رھنے لگے لیکن اب پنجابیوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کرنا شروع کردی ھے۔

صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں تک محدود سندھی ' بلوچ اور پٹھان گوکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرتے رھے ھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کی بھی نظریاتی تربیت اردو بولنے والی ھندوستانیوں کے ھاتھوں ھونے کی وجہ سے سندھی ' بلوچ اور پٹھان کا ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کے ساتھ بھی ھوتا رھا۔ جس کی وجہ سے اردو بولنے والی ھندوستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کرتی رھی۔ سندھی ' بلوچ اور پٹھان کو نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے کا موقعہ ملا اور نہ پنجابیوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی مراسم بہتر ھوسکے۔ بلکہ پنجابی خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے استحصال کا شکار ھونا شروع ھوگئے۔

پنجابی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے استحصال سے بچانے اور پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' بلوچ اور پٹھان کے آپس میں بہتر سیاسی اور سماجی مراسم کے لیے ضروری ھے کہ؛ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ خود کو اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کریں۔ پاکستان کے قیام سے لیکر چونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی رھی ھے اور اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ آسانی کے ساتھ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لیکن مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرنے والے سندھیوں ' بلوچوں اور پٹھانوں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائیوں اور پنجابیوں کی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کے بعد اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ؛ پنجابی  سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی  نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرکے اسٹیبلشمنٹ پر انکی بالادستی کو ختم کروائیں۔ تاکہ پاکستان میں سماجی استحکام پیدا ھوسکے ' سیاسی افراتفری ختم کی جاسکے ' انتظامی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور پاکستان کو معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔

No comments:

Post a Comment