Friday, 20 July 2018

کیا اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان مفاھمت ناگزیر ھے؟

سیاسی رھنماؤں کو سیاست کے میدان میں سیاسی مقابلہ کے ذریعے عوام کی حمایت سے محروم کیا جاتا ھے ' عدالتی فیصلوں کے ذریعے یا انتظامی اختیارات کے استعمال کے ذریعے سیاسی رھنما کو عوام کی حمایت سے محروم کرنا ناقابلِ عمل ھے۔ عدالتی فیصلے سے نواز شریف وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل ھوگیا ' ن لیگ کی صدارت سے بھی محروم ھوگیا اور اور اپنی بیٹی سمیت جیل بھی چلا گیا لیکن اس کے باوجود نواز شریف کو پنجاب کی عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم اور سیاست کے میدان سے باھر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ن لیگ کے عام رھنما تو اپنی جگہ اگر شھباز شریف بھی ن لیگ سے الگ ھوجاتا ھے تو شھباز شریف کی پنجاب کی عوام میں اھمیت ختم ھوجانی ھے لیکن نواز شریف سے پنجاب کی عوام کی اکثریت نے الگ نہیں ھونا۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ؛ پاکستان کے کسی سیاستدان میں سیاست کے میدان میں سیاسی مقابلہ کے ذریعے نواز شریف کو عوام کی حمایت سے اور خاص طور پر پنجاب کی عوام کی حمایت سے محروم کرنے کی صلاحیت نہیں ھے۔ اس لیے نواز شریف کو سیاست کے میدان سے باھر کرنے کا آخری طریقہ پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ ھے۔ لیکن مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے دفاعی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خارجی اور داخلی معاملات ' پاکستان کی عوام کے مسائل اور پاکستان کے صوبوں کی شکایات کو کنٹرول میں رکھنا پڑے گا۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی مخالفت کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا۔ جوکہ پنجاب میں سے عوام کی آرمی کے ساتھ محاذ آرائی کے شروع ھوجانے کی وجہ سے پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ بلکہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے اندر پنجابی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ ھندوستانی مھاجر اور پٹھان اسٹیبلشمنٹ کی تفریق بھی جنم لے سکتی ھے۔

میرے تجزیئے کے مطابق نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی اور نیب عدالت سے سزا دلوا کر جیل بھجوانے میں ادارے کی حیثیت سے پاکستان کی فوج کا کوئی کردار نہیں ھے۔ کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج اگر واضح پروگرام اور پالیسی کے ساتھ ادارے کے طور پر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی اور ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ھوتی۔ دراصل پرویز مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ آصف زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے دل کھول کر پاکستان میں کرپشن کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی کرپشن کا حساب کتاب کرنا تھا۔ نواز شریف کے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور میں کمائے گئے سرمایہ کا بڑا حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانا شروع کردیا۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے ساتھوں کو عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق  کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ عمران خان کے جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود التا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔ لیکن نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی اور نیب عدالت سے سزا کے بعد پاکستان کی فوج کے ادارے کے لیے بھی مشکلات بہت زیادہ بڑہ گئی ھیں۔

پاکستان کے کچھ الیکٹرونک میڈیا ھاؤس ' کچھ اینکرز ' کچھ تجزیہ نگار اور مشرف و زرداری کے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسران اور سیاستدان 2014 سے ھی وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سازش کر رھے تھے۔ اثار بتاتے ھیں کہ ان کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا کسی نے ٹھیکہ دیا ھوا تھا لیکن تاثر یہ دینے کی کوشش ھو رھی تھی کہ؛ دراصل پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام ھو رھا ھے۔ مقصد اس ٹھیکے کا ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کرنا تھا۔ اس لیے ھی الیکٹرونک میڈیا پر کچھ اینکرز ' کچھ تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کی طرف سے ایک تو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کی جارھی تھی اور دوسرا پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کیا جا رھا تھا۔ اصل میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کا ٹھیکہ دینے والے " ایک تیر سے دو شکار " کر رھے تھے۔ بظاھر انکا نشانہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو بدنام کرنا تھا لیکن پسِ پردہ انکا نشانہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بدنام کرنا تھا۔ تاکہ ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کیا جائے اور وہ بچے رھیں۔ یہ ماحول اب تک کافی حد تک بن بھی گیا ھے۔

نواز شریف کے پنجاب کی عوام کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پنجاب میں سیاست کا تندور گرم ھوگیا تھا لیکن عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کے اپنی بیٹی مریم نواز کے ھمراہ لندن سے آکر جیل جانے کے بعد سیاست کا تندور انتہائی گرم ھوتا جا رھا ھے۔ جب تندور گرم ھوتا ھے تو پڑوسی بھی روٹیاں لگا لیتے ھیں۔ اس لیے اب یہ ناممکن ھے کہ؛ پڑوسی روٹیاں نہ لگائیں۔ بلکہ پنجاب میں گرم ھونے والے سیاست کے تندور پر تو لگتا ھے کہ؛ امریکہ ' چین اور روس نے بھی روٹیاں لگانے والوں میں شامل ھو جانا ھے۔ جبکہ سیاست کے تندور کو زیادہ دیر تک اور زیادہ گرم رکھنے کے لیے کچھ نے تو تندور میں ایندھن بھی ڈالنا شروع کر دینا ھے۔ دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے اھم کھلاڑی امریکہ ' چین ' پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ ' نواز شریف ' پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان ھیں۔ پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان واضح طور پر امریکن کیمپ کی طرف سے کھیل کھیل رھے ھیں۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز با روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔

پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد اور خاص طور پر عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کے اپنی بیٹی مریم نواز کے ھمراہ لندن سے آکر جیل جانے کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان مفاھمت اور باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

No comments:

Post a Comment