Saturday 14 July 2018

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجابی لڑیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی۔ یہ الفاظ ولی خان نے 1990میں کہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجابی عوام نہیں لڑے گی۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف آخری لڑائی پنجابی  سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ  لڑیں گے۔ یہ الفاظ شھباز ارائیں نے 2012 میں کہے تھے۔

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ھے اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کی اکثریت چونکہ ذراعت پیشہ ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی اکثریت پنجاب کے دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے شھروں میں رھتی ھے۔ زیادہ تر ذراعت اور مال مویشیوں کے پیشے سے وابسطہ ھے یا پھر نوکریاں اور چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ھے۔ اس لیے ان میں بین الاقوامی یا قومی تو کیا صوبائی سطح کا بھی سیاسی شعور نہیں ھے۔ صرف مقامی سطح کا سیاسی شعور ھے۔ ان برادریوں کی دلچسپی بھی قومی یا صوبائی کے بجائے مقامی سیاست میں زیادہ ھوتی ھے۔ اس لیے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی رھتی ھیں۔

جب کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پنجابی قوم کی شیخ اور کشمیری برادریاں بڑی تعدا میں ھیں۔ پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ارائیں ' اعوان ' راجپوت ' جٹ ' گجر کی کثیر تعداد ایک تو دیہی علاقوں سے جاکر شھروں میں آباد ھوئی ھیں یا اب بھی آباد ھورھی ھیں اور دوسرا آپس کے برادری کے تنازعات کا شکار رھتی ھیں۔ اس لیے بڑے بڑے شھروں پر قبضہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا ھے۔ جو کہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں اور مذھبی تنظیموں پر بھی کنٹرول رکھتے ھیں اور پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں جاکر وھاں بھی کنٹرول رکھتے ھیں۔ اسی لیے صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رھتے ھیں۔ پنجابیوں کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ کرنے میں بھی ان کی اجارہ داری ھے۔

ارائیں ‘ اعوان ‘ جٹ ‘ راجپوت  ‘ گجر ’ کشمیری اور شیخ برادریاں جب تک صوبائی ھی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح کا بھی سیاسی شعور حاصل نہیں کرتیں اور پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں سیاست ' صحافت ' سرکاری دفتروں ' پرائیویٹ دفتروں ' اسکولوں ‘ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں ‘ مدرسوں ' مذھبی تنظیموں اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکریسی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا کنٹرول ختم کرکے اپنا کنٹرول قائم کرکے پنجاب کے عوام کی ذھن سازی اور پنجاب کی پالیسی میکنگ اپنے مزاج اور اپنے مفاد کے مطابق کرنا شروع نہیں کرتیں۔ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم رھنی ھے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

اس وقت چونکہ پنجاب کے دیہی علاقوں اور دیہی سندھ میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی کوئی وقعت نہیں ھے۔ جبکہ کراچی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کی سلامتی کے اداروں نے انتظامی طور پر "کھٹیا کھڑی" کردی ھے۔ اس لیے اب صرف سیاسی اور سماجی طور پر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی کو ختم کرنے کی ضرورت ھے۔ جسکے لیے کراچی کے سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں اور بلوچوں کو  کراچی کی سیاست ' صحافت اور سرکاری دفاتر پر سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط ختم کروانا پڑنا ھے۔

البتہ پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی لحاظ سے بے انتہا مظبوط اور منظم ھونے کی وجہ سے صرف پنجاب ھی نہیں بلکہ پاکستان کے قومی معاملات میں بھی بھرپور سازشیں کر رھے ھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر پنجاب میں اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے اپنی سازشوں کے لیے جماعتِ اسلامی کا پلیٹ فارم استعمال کرنا شروع کیے رکھا۔ لیکن پنجاب میں پنجابیوں کے سیکولر رحجان میں اضافے نے جماعتِ اسلامی کی افادیت کو ختم کردیا۔ جس کی وجہ سے اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم کو استعمال کر رھے ھیں۔ اسی لیے پنجاب کے بڑے بڑے شھروں میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سپورٹ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی حاصل ھے۔ لیکن پنجابیوں کی ن لیگ کو بھرپور سپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل تاریک ھے۔ جبکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سازشوں سے بھی پنجابیوں کو اب آگاہی ھونے لگی ھے۔ اس لیے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کا سلسلہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والا ھے۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی شکارگاہ تو بنا ھی رھا۔ لیکن دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانے بھی اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی آماجگاہ بنے رھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی خارخہ پالیسی ھمیشہ سے نہ صرف ناقص بلکہ پاکستان کے لیے نقصان دہ رھی۔ جب باھر کے ممالک میں زیادہ تر پنجابی رھتے ھیں تو؛ سفیر اور سفارتی عملہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کیوں؟ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے پاکستان کے سفارتخانوں سے خاص طور پر یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں رھنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سفارتی سطح پر سرپرستی کیوں ھونے دی جا رھی ھے؟

اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی سازشوں سے مکمل نجات کے لیے اب پاکستانی سفارتخانوں پر سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط ختم کروانے کی ضرورت ھے۔ خاص طور یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سفارتخانوں سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا تسلط فوری طور پر ختم کروانے کی ضرورت ھے۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی سازشوں کے اس وقت سب سے بڑے ٹھکانے یورپ ' امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے بنے ھوئے ھیں۔

سندھی ' بلوچ اور پٹھان چونکہ سفارتکاری ' صحافت ' قومی سیاست اور بیوروکریسی میں دسترس نہیں رکھتے۔ اس لیے سندھی ' بلوچ اور پٹھان صرف اپنے اپنے صوبوں میں ھی صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرتے ھیں لیکن اردو بولنے والے ھندوستانی پاکستان کے قیام سے لیکر ھی پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پنجابی عوام اور پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نظریاتی تربیت بھی اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے مزاج اور مفاد کے مطابق کرتے رھے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد بھی پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنی زبان پنجابی کا احترام کرنے کے بجائے اترپردیش کی زبان اردو کے اسیر ھیں۔ اپنی پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے گنگا جمنا کی ثقافت کے زیرِ اثر ھیں۔ اپنی پنجابی تہذیب پر فخر کرنے کے بجائے لکھنو کی تہذیب کے پیرو کار ھیں۔

پنجابی عوام تو اب اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کرنے لگے ھیں لیکن پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ابھی تک انکے چنگل میں پھنسے ھوئے ھیں۔ اس لیے پاکستان میں اصل اسٹیبلشمنٹ ھمیشہ سے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ رھے ھیں جبکہ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ ھمیشہ سے انکے ذھنی غلام اور آلہ کار رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو جسمانی طور پر پنجابی کہا جاسکتا ھے لیکن ذھنی طور پر " اترپردیشی " بنے ھوئے ھیں۔

جب تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت کے چنگل سے خود کو نہیں نکالتے۔ اس وقت تک پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ پاکستان کی سندھی ' بلوچ ' پٹھان عوام تو کیا پنجابی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق بھی امور انجام نہیں دے پائیں گے۔ سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے پاکستان کی عوام کے مزاج اور مفاد کے مطابق امور انجام نہ دینے کہ وجہ سے بنگالی قوم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرکے خود کو پاکستان سے الگ کرلیا۔ جبکہ سندھی ' بلوچ اور ُپٹھان اسٹیبلشمنٹ سے ناراض رھنے لگے لیکن اب پنجابیوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کرنا شروع کردی ھے۔

صوبائی اور مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں تک محدود سندھی ' بلوچ اور پٹھان گوکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی کرتے رھے ھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کی بھی نظریاتی تربیت اردو بولنے والی ھندوستانیوں کے ھاتھوں ھونے کی وجہ سے سندھی ' بلوچ اور پٹھان کا ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کے ساتھ بھی ھوتا رھا۔ جس کی وجہ سے اردو بولنے والی ھندوستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریوں میں اپنی بالادستی قائم کرتی رھی۔ سندھی ' بلوچ اور پٹھان کو نہ تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے کا موقعہ ملا اور نہ پنجابیوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی مراسم بہتر ھوسکے۔ بلکہ پنجابی خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے استحصال کا شکار ھونا شروع ھوگئے۔

پنجابی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے استحصال سے بچانے اور پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' بلوچ اور پٹھان کے آپس میں بہتر سیاسی اور سماجی مراسم کے لیے ضروری ھے کہ؛ پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ خود کو اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کی جانے والی نظریاتی تربیت سے نجات حاصل کریں۔ پاکستان کے قیام سے لیکر چونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی رھی ھے اور اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کام امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی سفارتکار ' صحافی ' سیاستدان اور بیوروکریٹ آسانی کے ساتھ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لیکن مقامی سیاست ' صحافت اور سرکاری نوکریاں کرنے والے سندھیوں ' بلوچوں اور پٹھانوں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائیوں اور پنجابیوں کی اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر تنقید اور تشویش کے بعد اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ؛ پنجابی  سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو اسٹیبلشمنٹ کے اردو بولنے والے ھندوستانی سفارتکاروں ' صحافیوں ' سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف آخری لڑائی لڑنی پڑے گی۔ تاکہ پاکستان میں سماجی استحکام پیدا ھوسکے ' سیاسی افراتفری ختم کی جاسکے ' انتظامی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور پاکستان کو معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔

No comments:

Post a Comment