ایک
شیر نے ایک بزرگ سے بیعت کرلی۔ بزرگ نے شیر سے کہا کہ؛ تو جنگل کا بادشاہ ھے۔ اس
لیے نہ اپنی دھاڑ سے جنگل کے جانوروں کو ڈرایا کر اور نہ ان کے ساتھ زیادتی کیا
کر۔ شیر نے بزرگ کی ھدایت پر عمل کرنا شروع کردیا۔
جنگل
کے جانوروں نے جب دیکھا کہ؛ شیر تودھاڑتا ھی نہیں بلکہ مرے ھوئے جانوروں کو کھا کر
گذارا کرتا ھے۔ زندہ جانوروں کو کچھ کہتا ھی نہیں۔ تو جنگل کے دیگر جانور تو اپنی
جگہ بندر اور گیدڑ تک شیر کو بادشاہ سلامت کے بجائے تو ' تو کہہ کر مخاطب ھونا
شروع ھوگئے۔
پھر
بھی شیر خاموش رھا تو کتے اور بلیاں بھی میدان میں آگئے اور شیر کی درگت بنانا
شروع کردی۔ محسوس یہ ھونا شروع ھو گیا کہ؛ جیسے جنگل میں شیر کا نہیں بلکہ بندر '
گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کر رھی ھیں۔ جنگل میں ھر طرف افراتفری پھیلنے لگی اور
شیر کو دم دبا کر بیٹھنا پڑگیا۔
ایک
دن بزرگ نے شیر سے پوچھا کہ؛ جنگل کا نظام درھم برھم کیوں ھے؟ شیر نے ماجرا کہہ
سنایا۔ بزرگ نے کہا کہ؛ میں نے تو دھاڑ کر جنگل کے جانوروں کو ڈرانے اور ان کے
ساتھ زیادتی کرنے سے منع کیا تھا۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا نظام درھم
برھم ھونے سے بچانے کے لیے تجھے دھاڑنے سے منع نہیں کیا تھا۔ تاکہ بندر ' گیدڑ '
کتے اور بلیاں راج کرنے لگ جائیں۔ بلکہ تمہارے گلے پڑنے لگ جائیں۔
بزرگ
نے کہا !!! شیر بنو شیر اور بادشاھت کرو۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا
نظام درھم برھم ھونے سے بچانے کے لیے دھاڑا کرو اور شیر ھونے کا ثبوت بھی دیا کرو۔
بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں ھی نہیں ' ھاتھی جیسے چلنے اور اژدھے جیسے رینگنے
والے جانور کو بھی اپنی اوقات میں رکھا کرو۔ ورنہ خود تو برباد ھو رھے ھو ' جنگل
کو بھی تباہ کردو گے۔
نوٹ:-
اس کہانی کا پاکستان میں پنجابی کے کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ھی پٹھان ' بلوچ '
مھاجر وغیرہ کا اس کہانی سے کوئی تعلق ھے۔ یہ ایک جنگل کی کہانی ھے۔ جہاں بندر '
گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کرنے لگے تھے۔
No comments:
Post a Comment