1972ء
سے سندھی کو صوبے میں ایک قانون کے ذریعے سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔ پھر کیوں
سندھ کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں خط و کتابت کے لئے انگریزی استعمال
کی جاتی ھے؟ 1972ء کے قانون میں واضح طور پر لکھا ھوا ھے کہ دفتری زبان سندھی ھوگی۔
صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں سندھی لازمی طور پر پڑھائی جائے گی۔ اس قانون کے
تحت سندھ حکومت کو اختیار ھے کہ وہ سندھی زبان کے فروغ کے لئے قواعد و ضوابط بنا
سکتی ھے۔ اس قانون میں یہ بھی لکھا ھوا ھے کہ صوبائی حکومت صوبے کے محکموں اور
اداروں میں سندھی زبان رائج کرنے کے مکمل اختیارات رکھتی ھے۔ اسی طرح سندھ
پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز ایکٹ 2005 کے تحت بھی سندھ حکومت نجی تعلیمی
اداروں میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ھے اور نجی تعلیمی ادارے
سندھی زبان کی تدریس کے پابند ھیں۔ لیکن عملی طور پر صوبے میں تقریبا تمام نجی
اسکول سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر نہیں پڑھاتے۔ یہاں تک کہ کراچی کے تعلیمی
اداروں سے سندھی زبان نکال دی گئی ھے۔
سندھ میں
1972ء میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو
کی طرف سے سندھ اسمبلی سے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کا بل پاس
کروانے پر فسادات شروع ھوگئے تھے. جنہیں لسانی فسادات 1972 کا نام دیا جاتا ھے۔
1972 میں سندھ کا سماجی اور سیاسی ماحول سندھی اور غیر سندھی تھا۔ مھاجر ' پنجابی '
پٹھان کو غیر سندھی شمار کیا جاتا تھا۔ مھاجر ' پنجابی ' پٹھان خود کو غیر سندھی
کہلواتے تھے اور سیاسی طور پر غیر سندھی کی بنیاد پر متحد تھے۔ وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے فسادات
پر قابو پانے کے فوری اقدامات کئے اور غیر سندھی اکابرین کو اسلام آباد مدعو کیا۔ غیر
سندھی اکابرین کی طرف سے مھاجر ' پنجابی ' پٹھان متحدہ محاذ کے نواب مطفر خان ' چوھدری
محمد اشرف ' علی محمد کاکڑ ' کراچی صوبہ تحریک کے آزاد بن حیدر ' سندھ اسمبلی کے
قائد حزب اختلاف جے یو پی کے شاہ فرید الحق ' سندھ اسمبلی کے اراکین جے یو پی کے
ظہور الحسن بھوپالی ' مسلم لیگ کے جی اے مدنی ' جماعت اسلامی کے افتخار احمد '
نیشنل عوامی پارٹی کے محمود الحق عثمانی ' دانشور رئیس امروھی اور سابق وائس
چانسلر کراچی یونیورسٹی اشتیاق حسین قریشی شامل تھے۔ جہاں ایک سمجھوتہ طے پایا۔
ذوالفقار
علی بھٹو اور غیر سندھی اکابرین کے درمیان ھونے والے سمجھوتے کے تحت سندھ کو سندھی اور غیر سندھی صوبہ قرار دیا گیا اور طے کیا گیا کہ سندھ میں وزیر اعلیٰ سندھی تو گورنر
غیر سندھی ھوگا چیف سیکرٹری سندھی تو آئی جی پولیس غیر سندھی ھوگا۔ وزیر سندھی ھوگا
تو وزارت کا سیکرٹری غیر سندھی ھوگا۔ اسی طرح ضلع میں ڈپٹی کمشنر اگر غیر سندھی ھوگا
تو ایس ایس پی سندھی ھوگا۔ کمشنر اور ڈی آئی جی کے بارے میں بھی یہی طے کیا گیا
تھا۔ سمجھوتے میں سندھ میں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے
جو کوٹہ سسٹم موجود تھا ' اسے شہری اور دیہی کوٹے کا نام دیا گیا تھا۔ ایک اصول یہ
تھا کہ گورنر کو سندھ کی سرکاری جامعات کا چانسلر بھی مقرر کیا گیا تھا اور سندھ
کے تمام تعلیمی بورڈ گورنر کی نگرانی میں دے دیئے گئے تھے۔ سندھی اور غیر سندھی کی
اصطلاح بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ھی استعمال کی تھی۔ ان فسادات کے اثرات کو ختم
کرانے کے لئے صوبائی محکمہ اطلاعات نے ایک مہم چلائی تھی جس میں ایک پوسٹر لوگوں
کی توجہ کا مرکز بنا تھا کہ دو کم سن بچیاں ایک دوسرے کے ھاتھوں میں ھاتھ ڈالے
جھول رھی تھیں۔ ایک بچی نے غرارہ پہنا ھوا تھا اور دوسری نے شلوار پہنی ھوئی تھی۔
دکھانا یہ مقصود تھا کہ سندھی اور غیر سندھی ھاتھوں میں ھاتھ ڈالے ھوئے ھیں۔
No comments:
Post a Comment