مملکت
کا نظام ایک فرد نہیں چلا سکتا۔ بادشاھت ھو یا جمہوریت ھو۔ مملکت کا نظام اجتماعی
طور پر ھی چلایا جا سکتا ھے۔ مملکت کا نظام چلانے میں دانشور' سفارتکار' فوجی افسر
' سول افسر' سرمایہ دار ' سیاستدان کا اپنا اپنا کردار ھوتا ھے۔ جہاں ھر فریق اپنا
اپنا کردار ادا کرے وھاں ترقی ھوتی ھے۔ جہاں ھر فریق اپنا اپنا کردار ادا نہ کرے
وھاں تنزلی ھوتی ھے۔ اس لیے قوم کی حالت لوگوں کی عادتوں کے مطابق ھوتی ھے۔ قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے کہ؛ الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ ان
عادتوں کو نہ بدلے جو اس میں ھیں۔ (11-13) قرآن پاک میں قانون بیان کردیا گیا ھے
کہ؛ عوام اگر ترقی کرنا چاھتے ھیں تو جس شخص کو اپنا سربراہ بنائیں اسے دولت کی
فراوانی کی بنیاد پر نہ بنائیں بلکہ علم کی بنیاد پر بنائیں جبکہ اس کا جسمانی طور
پر صحت مند ھونا بھی ضروری ھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے کہ؛ ان سے ان
کے نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ھے۔ وہ بولے کہ؛ وہ ھم
پر بادشاہ کیونکر ھوسکتا ھے؟ جبکہ ھم اس سے زیادہ بادشاھی کے حقدار ھیں۔ کیونکہ
اسے مالی صلاحیت نہیں دی گئی ھے۔ نبی نے کہا کہ؛ الله نے تم پر اسے منتخب کرلیا ھے
اور اس کو علم میں فراوانی اور جسمانی طاقت زیادہ عطا کی ھے اور الله اپنا
ملک جس کو چاھتا ھے عطا کرتا ھے اور اللہ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ھے۔(247-2)
علم
' دولت ' طاقت کا اپنا اپنا مصرف ھے۔ دانشور کے پاس علم ھوتا ھے۔ سرمایہ دار کے
پاس دولت ھوتی ھے۔ فوجی افسر کے پاس طاقت ھوتی ھے۔ سول افسر اور سفارتکار مہرے
ھوتے ھیں۔ علم والوں کے سیاست کرنے اور حکمران بننے سے ملک مظبوط اور قومیں خوشحال
اس لیے ھونے لگتی ھیں کہ علم والے حکمران بننے کے بعد فوجی افسروں کی طاقت کو ملک
کے دفاع میں مشغول کردیتے ھیں۔ سول افسروں اور سفارتکاروں کو قوم کی خوشحالی کے
منصبوں میں مصروف کردیتے ھیں۔ جبکہ سرمایہ داروں کو معیشت کی فراونی والے شعبوں
میں سرمایہ کاری پر لگا دیتے ھیں۔ سیاستدان اگر سرمایہ دار ھوں تو حکومتی طاقت کے
لیے فوجی افسروں کی تابعداری کرتے ھیں۔ جبکہ علم نہ ھونے کی وجہ سے سول افسروں اور
سفارتکاروں کے مہرے بنے رھتے ھیں اور حکمراں بننے کے بعد سرمایہ دار خود سرمایہ
بنانے میں لگے رھتے ھیں۔ اس لیے سرمایہ دار کے حکمران بننے سے ملک برباد اور قومیں
تباہ ھونے لگتی ھیں۔ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی تب ھی ھوتی ھے جب سرمایہ دار
نہیں بلکہ صاحبِ علم سیاستدان ھوں۔
فوجی
افسر خود تو سیاست نہیں کرتے لیکن فوجی افسروں کے پاس طاقت ھوتی ھے۔ فوجی افسر جب
طاقت کی بنیاد پر حکومت سمبھال لیں تو اپنے علم کی بنیاد پر مشورے دینے کی وجہ سے
دانشوروں کو طاقتور فوجی افسروں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ھے۔ اس لیے نقلی
دانشور میدان میں آجاتے ھیں جو طاقتور فوجی افسروں کے سامنے ان کی مرضی و منشا کے
مطابق مشورے دینا شروع کردیتے ھیں۔ سول افسر اور سفارتکار مہرے ھونے کی وجہ سے
طاقتور فوجی افسروں کی مرضی و منشا کے مطابق کام کرنا شروع کردیتے ھیں۔ سرمایہ دار
طاقتور فوجی افسروں کی تابعداری کرنے اور سرمایہ بنانے لگتے ھیں۔ سیاسدانوں کے
فرائض انجام دینے کے لیے فوجی افسر اپنے عزیز و اقربا یا مقامی سطح پر عوام میں
علاقائی یا برادری کی بنیاد پر اثر و رسوخ رکھنے والوں اور فوجی افسروں کے مزاج کے
مطابق سیاست کرنے والوں کی سرپرستی کرتے ھیں۔ فوجی افسروں کی طاقت کو ملک کے دفاع
میں مشغول رکھنے کے بجائے عوامی امور میں بھی مشغول کرنے کی وجہ سے ملک کے دفاع کے
معاملات میں پیچیدگی شروع ھوجاتی ھے۔ عوام میں سماجی مسائل ' انتظامی نا انصافی '
معاشی پیچیدگیاں جنم لینے لگتی ھیں۔ لیکن علم نہ ھونے اور طاقت کی بنیاد پر سوچنے
کی وجہ سے فوجی افسر اس کا ادراک نہیں کرپاتے۔ اس لیے طاقت کی بنیاد پر فوجی
افسروں کے حکومت سمبھالنے سے ملک برباد اور قومیں تباہ ھونے لگتی ھیں۔
No comments:
Post a Comment