سوشل
میڈیا سے پہلے حکومتی اور سیاسی معاملات حکومتی اداروں اور عوام کے منتخب نمائندوں
کے زیرِ غور رھتے تھے یا پھر سیاسی شعور رکھنے والے حضرات کو اخبارات اور رسائل کے
ذریعے آگاھی حاصل ھوجایا کرتی تھی۔ اس آگاھی پر یار ' دوست ' حلقہ احباب مل بیٹھ
کر تبادلہ خیال کرلیا کرتے تھے۔ اس سے غور و فکر کرنے کی عادت پڑتی تھی اور سیاسی
شعور پختہ ھوتا تھا۔ جبکہ صرف حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کے بس کی بات
ھوتی تھی کہ پریس کانفرنس یا اخباری انٹرویو یا پریس رلیز کے ذریعے حکومتی اور
سیاسی امور کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ اس لیے حکومتی اور سیاسی
جماعتوں کے عہدیداروں کا عوام میں عزت و احترام ھوتا تھا۔ جبکہ عوام کا دھیان اپنے
اپنے گھریلو ' کاروباری ' محلہ داری اور برادری کے معاملات پر زیادہ رھتا تھا۔ صرف
حکومتی ادارں ' سیاسی جماعتوں اور صحافت سے وابستہ شعبوں کے افراد کا دھیان حکومتی
اور سیاسی امور پر زیادہ رھتا تھا۔
سوشل
میڈیا کے عام ھوجانے کے بعد صورتحال یہ ھے سوشل میڈیا تک رسائی رکھنے والوں میں سے
کچھ لوگ بغیر علم اور تجربے کے زور شور کے ساتھ سوشل میڈیا پر حکومتی اور سیاسی
امور کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے اور تبادلہ خیال کرنے میں لگے رھتے ھیں۔
چونکہ نقارخانے میں توتی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ حکومتی اداروں ' عوام کے منتخب
نمائندوں اور سیاسی شعور رکھنے والے حضرات کے حکومتی اور سیاسی امور کے بارے میں
موقف پر یار ' دوست ' حلقہ احباب مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کر نہیں پاتے۔ اس لیے
حکومتی اور سیاسی امور کے بارے غور و فکر کیے بغیر عوام کا دھیان حکومتی اور سیاسی
امور پر رھتا ھے۔ جس سے عوام میں نفاسی نفسی اور انتشار میں روز بروز اضافہ ھوتا
جارھا ھے۔ اس صورتحال میں اگر سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اپنے علم اور تجربے کی روشنی
میں حکومتی اور سیاسی امور کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے بھی ھیں تو میاں
محمد بخش کا ایک شعر یاد آنے لگتا ھے؛ خاصاں دی گل عاماں اگےنہیں مُناسب کرنی -
مٹھی کھیر پُکا مُحمد کُتیاں اگےدھرنی۔
اس
صورتحال کا تدارک کرنے کا بہترین طریقہ یہی ھے کہ بغیر علم اور تجربے کے زور شور
کے ساتھ سوشل میڈیا پر حکومتی اور سیاسی امور کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے
والوں سے نجات حاصل کی جائے۔ زیادہ افراد کو فرینڈ بنانے یا فالو کرنے کے بجائے
تعداد کو غور و فکر کے عادی خواتین و حضرات تک محدود رکھا جائے۔ تاکہ حکومتی اور
سیاسی امور کے بارے میں یار ' دوست ' حلقہ احباب مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کرسکیں
اور سیاسی شعور پختہ ھو۔ جبکہ حکومتی اور سیاسی امور کے ساتھ ساتھ اپنا دھیان اپنے
اپنے گھریلو ' کاروباری ' محلہ داری اور برادری کے معاملات پر بھی رکھا جاسکے۔
No comments:
Post a Comment