Thursday 25 July 2019

قائد اعظم کے ابتدائی تیس سال ۔ تحریر : لیاقت علی ایڈووکیٹ


بانی پاکستان محمد علی جناح کی ذاتی اور سیاسی زندگی کے بارے میں ویسے تو اب تک متعدد کتب لکھی جاچکی ھیں لیکن ان سب کے بارے میں عمومی تاثر یہی ھے کہ وہ غیرمصدقہ اور یک طرفہ ھیں۔ جناح کو پاکستان کے ریاستی بیانیہ میں جو نیم الوحی درجہ دے دیا گیا ھے اس کی موجودگی میں ان کی سیاست ھو یا ذاتی زندگی اس بارے معروضی سیاق و سباق میں لکھنا مشکل ھی نہیں ناممکن ھو چکا ھے۔

جناح کے حوالے سے ریاستی بیانیہ میں جناح تقدس کے جس اعلیٰ مقام پر فائز ھیں اس سے ھٹ کر ان کی شخصیت اور سیاست کے بارے میں کسی بات کا بیان "لاسفیمی" کے زمرے میں شمار ھوتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ جناح کے بارے میں لکھی گئی کتب ھوں یا مضامین سب تعریف و توصیف پر مبنی ھوتے ھیں۔ ان کی سیاست کے کسی پہلو کا تنقیدی جائزہ لینے والے کو عام طور پر "غیر محب وطن" کہہ کر مطعون کرنا ھمارا قومی فریضہ بن چکا ھے۔

رضوان احمد کی کتاب "قائد اعظم۔ابتدائی تیس سال" کا شمار بھی ایسی ھی کتابوں میں ھوتا ھے جس میں جناح کی سیاست اور ذاتی زندگی کو معذرت خواھانہ انداز میں بیان کیا گیا ھے لیکن اس روایتی طریقہ کار کے ساتھ ساتھ رضوان احمد نے جناح کی زندگی کے ابتدائی تیس سالوں (1876-1906) کے بارے ایسی معلومات بھی فراھم کی ھیں جو اس موضوع پر لکھی گئی دیگر کتب میں میسر نہیں ھیں۔

رضوان احمد معروف معنوں میں مورخ نہیں ھیں۔ الہ آباد ( یو۔پی بھارت) میں پیدا ھونے والے رضوان احمد نے اپنے کیئر یر کا آغاز ڈھاکہ سے بطور وکیل کیا تھا۔ لیکن جلد ھی وہ کراچی منتقل ھوگئے اور یہاں وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وکالت اور سیاست میں سرگرم رضوان احمد نے جناح اور تحریک قیام پاکستان کا مطا لعہ شروع کیا جس میں ان کی دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی اور انہوں نے اس بارے مضامین لکھنا شروع کیے ۔

رضوان احمد نے 1976 میں 1940-1942 میں پیش آنے والے واقعات میں جناح کے رول کے حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل "جناح پیپر ز " مرتب کیے جنہیں علمی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی تھی۔ "قائد اعظم کے ابتدائی تیس سال" میں رضوان احمد نے جناح کے والد اور والدہ کے خاندان ‘ والد کے کاروبار اور ان کی نجی اور کاروباری زندگی سے جڑے واقعات کی تفصیلات ‘جناح کی پیدائش’ بچپن’ ابتدائی تعلیم’ ان کی اپنی تجارتی فرم کے قیام اور بعد ازاں اعلی تعلیم کے لیے لندن روانگی کا احوال درج کیا ھے۔

رضوان احمد لکھتے ھیں کہ؛ قیام پاکستان کے چون سال قبل کی بات ھے کہ کراچی کے ایک معزز تاجر گھرانے کا نوخیز لڑکا محمد علی جناح بھائی 1893 میں سات سمندر پار تجارتی سفر پر روانہ ھوا چھٹی جماعت کے اس طالب علم کا یہ سفر اچانک نہیں تھا بلکہ ایک سال کی تاخیر سے شروع ھوا تھا۔ صفحہ (21)۔

محمد علی ابھی پانچویں جماعت میں تھے کہ ان کے والد نے ان کو لندن بھیجنے کا فیٖصلہ کیا تھا۔ لندن بھیجنے کا تذکرہ آتے ھی خیال ھوگا کہ اعلی تعلیم دلوانا مقصود تھا۔ لیکن یہاں اس کا اولین مقصد تجارتی نظر آتا ھے۔ اعلیٰ تعلیم کی شرائط ابھی کہاں پورے ھوئے تھے۔ وہ پانچویں جماعت میں تھے اور وہ صرف طالب علم ھی نہیں (والد کے) کاروبار میں بھی حصہ لے رھے تھے۔ ( صفحہ 71 )۔

ھماری درسی کتب میں بیان کیا جاتا ھے کہ جناح اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لندن گئے تھے۔ لیکن رضوان احمد اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا موقف ھے کہ؛ جناح اعلی تعلیم کے حصول کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کی توسیع کے لیے لند ن گئے تھے۔ جہاں ان کے والد نے اپنی کاروباری فرم کا دفتر قائم کیا تھا اور جناح کو اس فرم کے امور کی نگرانی کرنا تھی۔

قائد اعظم کی سرکاری سوانح میں ھے؛ وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے (لندن) گئے تھے اور ان کے والد جناح پونجا کو ایک انگریز تاجر فریڈرک کرافٹ نے محمد علی جناح کی ذھانت و فطانت دیکھ کر یہ مشورہ دیا تھا کہ اسے لندن بھیجو۔ مگر حالات و واقعات کی دستاویزات یہ شہادت دیتی ھیں کہ وہ کاروبار کے سلسلے میں لندن گئے تھے نہ کہ اعلی تعلیم کے لیے۔ اس لیے کسی فریڈرک کے اس مشورے کی کوئی بنیاد سرے سے قائم نہیں ھوتی کہ "قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو لندن بھیجو"۔ ( صفحہ 88 )۔

رضوان احمد لکھتے ھیں کہ کتابوں میں یہ بھی درج ھے کہ؛ نوخیز محمد علی جناح اپنی تعلیم میٹریکولیشن تک مکمل کرنے کے بعد لندن گئے تھے ۔ ھیکڑ بولیتھو (جناح نگار کے پہلے انگریز سوانح نگار) کا یہاں بھی یہ بیان موجود ھے اور اروو زبان میں اسے دسویں لکھا ور سمجھا جاتا ھے۔ حالانکہ دستاویزات بتاتی ھیں کہ وہ چھٹی جماعت میں تھے اور اس کا امتحان دینے سے پہلے ھی اسکول چھوڑ کر لند ن چلے گئے تھے۔ اُس زمانے میں دسویں جماعت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ساتویں جماعت میٹرک کے برابر ھوتی تھی جسے انٹرنس ایگزامنیشن بھی کہتے تھے۔ (صفحہ 90 )۔

جناح کی عائلی زندگی کے بارے میں بھی بہت کم معلومات عام قاری کو میسر ھیں۔ ان کی دوسری بیوی رتی جناح کا ذکر تو ھوتا ھے لیکن ان کی پہلی بیوی امر بائی کا ذکر بالکل نہیں کیا جاتا۔ رضوان احمد نے جناح کی پہلی شادی کا احوال بھی لکھا ھے ۔نوخیز محمد علی کی پہلی شادی لیرا کھیم جی کی بیٹی امر بائی سے ھوئی تھی۔ لیرا کھیم جی بمبئی کے دولت مند تاجروں میں تھے۔ (صفحہ73)۔

قائد اعظم بیرسٹری کرنے کے بعد جب واپس ھندوستان آئے تو انہوں نے اپنے والد کے ساتھ بمبئی کے خوجہ محلہ میں رھائش اختیار کرنے کی بجائے اپالو ھوٹل کے کمرہ نمبر 110میں ٹھہرنے کو ترجیح دی جو ان کے مغربی طرز رھائش کے مطابق تھا۔ (صفحہ 112)۔

قائد اعظم خود تو اپالو ھوٹل میں قیام پذیر ھوئے جب کہ ان کی بیوی اپنے خسر کے یہاں اپنی نندوں کے ساتھ رھتی تھیں۔ ان کا انتقال اسی زمانے میں (بوجہ طاعون) ھوا تھا (صفحہ 115 )۔ طاعون پھیلنے کی بنا پر قائد کے والد اپنے خاندان کے ھمراہ بمبئی کے نواحی علاقے رتنا گیری منتقل ھوگئے۔ لیکن قائد ان کے ساتھ نہ گئے اور اپالو ھوٹل ھی میں مقیم رھے تھے۔

قائد اعظم کے لبرل حمایتی انہیں دادا بھائی نورو جی کا سیکرٹری بتاتے ھیں۔ لیکن رضوان احمد اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ھے کہ دادا بھائی نورو جی کی شخصیت بہت بڑی تھی۔ وہ بر عظیم میں بھی محترم تھے اور انگلستان میں بھی ان کی عز ت تھی۔ انگریزی زبان میں ان کے لیے "گرینڈ اولڈ مین" کا لقب استعمال کیا جاتا ھے۔ ان کا پرائیویٹ سیکرٹری ھونا بڑے فخر کی بات تھی۔

لیکن واقعہ یہ ھے کہ؛ اس کا تذکرہ کہ جناح ان کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ نہ تو دادا بھائی نورو جی کی خود نوشت میں نظر آتا ھے۔ نہ دادا بھائی نورو جی کی سوانح عمری لکھنے والوں نے کہیں اشارہ کیا ھے کہ کسی اجلاس میں جب دادا بھائی نورو جی اس کے صدر ھوں تو وھاں محمد علی جناح نے ان کی اعانت کی ھو۔ کچھ کاغذات فراھم کیے ھوں۔ کچھ نوٹس لیے ھوں۔ کچھ سرگوشیاں کرتے رھے ھوں اور اسی سے دیکھنے والوں نے یہ تاثر لیا ھو کہ وہ سیکرٹری ھیں یا پرائیویٹ سیکرٹری ھیں۔ (صفحہ 150 )۔

ان کا کہنا ھے کہ؛ دادا بھائی نورو جی نے برطانوی پارلیمنٹ کا الیکشن 1892میں لڑا۔ جبکہ جناح انگلستان 1893میں پہنچے۔ لہذا یہ کہانی کہ جناح ان کے سیکرٹری تھے اور ان کی انتخابی مہم میں بھی انہوں حصہ لیا تھا محض افسانہ ھے۔ رضوان احمد قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں موجود کنفیوژن کا بھی ذکر کرتے ھیں۔ ان کے نزدیک جن دنوں قائد اعظم مختلف تعلیمی اداروں میں بغرض تعلیم داخل ھوئے۔ وھاں صرف سن لکھا جاتا۔ تاریخ اور مہینہ نہیں پوچھا جاتا تھا۔

ان کے نزدیک مختلف دستاویزات میں قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کا سن مختلف ھے۔ ان کی پہلی بائیو گرافی سر وجنی نائیڈو نے "محمد علی جناح ۔ سفیر اتحاد" کے نام سے لکھی تھی۔ اس میں بھی 25 دسمبر ھی قائد اعظم کی تاریخ پیدائش درج کی تھی۔ لیکن سال کے بارے میں ان کو پورا یقین نہیں تھا۔ رضوان احمد لکھتے ھیں کہ قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں جو شواھد سامنے آ چکے ھیں۔ ان کی روشنی میں 1870 ’ 1873 ' 1875 ’ 1876 قرار پاسکتا ھے۔

رضوان احمد کی یہ کتاب معذرت خواھانہ ھونے کے باوجود محمدعلی جناح کی زندگی کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ھے جن کے بارے میں ھماری درسی کتابیں اور ریاستی بیانیہ خاموشی کو ترجیح دیتا ھے۔

کتاب: قائد اعظم کے ابتدائی تیس سال
مصنف: رضوان احمد
ناشر: جنرل نالج اکیڈیمی ‘ناظم آباد کراچی

No comments:

Post a Comment