Saturday, 20 July 2019

پاکستان کے قیام کے وقت “پاور کے کھیل" میں پنجابی کی ھار ھوئی۔

فارن افیئر ' بیوروکریسی ' ملٹری ‘ انڈسٹری ' ٹریڈ بزنس ' اسکلڈ پروفیشن ' نیشنل میڈیا اور بڑے بڑے شہروں پر جس قوم کی بالادستی ھو ' وہ قوم "پاور فل" ھوتی ھے اور سیاست اس "پاور" کو حاصل کرنے کا راستہ ھے۔ پاور فل ھونے کے لیے ھی افراد ' خاندان ‘ برادری اور قوم ' سیاست کرتے ھیں ' جن کو "پاور پلیر" کہا جاتا ھے۔ "پاور پلیر" ھر دور میں کھیل کھیلتے آئے ھیں۔ اس لیے ھر جگاہ سیاست ھوتی ھے اور ھر دور میں ھوتی آئی ھے۔ یہ البتہ الگ بات ھے کہ سیاست کہیں جمھوری طریقوں اور سیاسی اصولوں کے تحت ھوتی ھے اور کہیں آمرانہ طریقوں اور سیاسی سازشوں کے ذریعے ھوتی ھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت بھی “پاور” کا کھیل ھوا تھا ' جس میں ھار پنجابی کی ھوئی اور ھندی- اردو بولنے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے ) جیت گے۔ برٹش انڈیا کی سب سے بڑی قوم ھندی- اردو بولنے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے ) تھے ' بنگالی دوسری بڑی قوم تھے۔ جبکہ پنجابی تیسری ' تیلگو چوتھی ' مراٹھی پانچویں ' تامل چھٹی ' گجراتی ساتویں ' کنڑا آٹھویں ' ملایالم نویں ' اڑیہ دسویں بڑی قوم تھے۔

برٹش انڈیا میں "ٹو نیشن تھیوری" کو بنیاد بنا کر ' دوسری بڑی قوم بنگالی اور تیسری بڑی قوم پنجابی کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کر کے مسلمان بنگالیوں اور مسلمان پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کر کے ایک تو انڈیا کی دوسری اور تیسری بڑی قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرا برٹش انڈیا کی چوتھی ' پانچویں ' چھٹی ' ساتویں ' آٹھویں ' نویں ' دسویں بڑی قوم کو ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی میں دے دیا گیا۔ تیسرا اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لا کر ' پاکستان کا وزیرِ اعظم اردو بولنے والا ھندوستانی بنا دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان بھی گنگا جمنا کلچر والے ھندوستانیوں کی زبان اردو کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کا قومی لباس بھی گنگا جمنا کلچر والوں کی شیروانی اور پاجامہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت ' دستور ساز اسمبلی ' بیوروکریسی ' سیاست ' میڈیا ' شہری علاقوں ' تعلیمی اداروں پر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم کروا دی گئی۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی ھونی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی ھونی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو بننا چاھیے تھا جبکہ وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ لیکن 15 اگست کو پاکستان کے قیام کے اعلان سے ایک دن پہلے ھی ٹھٹھہ کے علاقے جھرک میں پیدا ھونے والے سندھی خوجے جناح پونجا کے بیٹے محمد علی نے ' جسے قائد اعظم بھی کہا جاتا تھا ' 14 اگست کو پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا اور اترپردیش سے کراچی پہنچ جانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا کر سندھ میں پاکستان کے قیام کا جشن منانا شروع کردیا۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی پنجاب کی تقسیم کا اعلان ھو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی لاشیں گرا رھے تھے اور پنجاب کے علاقوں کی بھارت اور پاکستان میں بندر باٹ کا انتظار کر رھے تھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم ھوجانے کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو ' جو سارے پنجاب میں آپس میں مل جل کر رھتے تھے ' پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم قرار دیے جانے والے علاقوں میں نقل مکانی شروع کرنا پڑی۔ جسکی وجہ سے مزید مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا اور اگست سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔ سندھی محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی سیاسی پارٹی یونینسٹ کو ھرانے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو 1946 کا الیکشن جتوانے کے لیے سندھی محمد علی جناح نے پنجاب میں مذھبی نفرت کی جو آگ لگائی ' پنجابی قوم اب تک اس میں جل رھی ھے۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تو بنگالی ھونی چاھیے تھی جبکہ مغربی پاکستان کی نہ سہی تو کم از کم پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ھونی چاھیے تھی۔ لیکن پاکستان کے سندھی گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی عوام سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور دفتری امور انجام دینے حتکہ پنجاب اسمبلی میں اپنی زبان میں بات کرنے کا حق بھی چھین لیا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں سندھی محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ھوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہا کہ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو اور صرف اردو ھوگی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھوں گے۔ اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے لیے پاکستان میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے ' دفتری امور انجام دینے اور اپنی اپنی صوبائی اسمبلی میں اپنی اپنی زبان میں بات کرنے کے بجائے اردو کو استعمال کرنا قانونی حکم بن گیا جس کی خلاف ورزی جرم قرار پائی۔

پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مزید اقدامات کرتے ھوئے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر مشرقی پاکستان کی ثقافت اور مغربی پاکستان کی اصل قوموں کی وادیء سندھ کی ثقافت کی جگہ اتر پردیش کی ثقافت کو فروغ دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔ جبکہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں ھونے لیکن مغربی پاکستان کے خطے کی سب سے بڑی قوم پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کو حکومتی طور بھی بے بس اور اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔

پاکستان پر حکومتی گرفت ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

پنجاب تقسیم ھوجانے اور 20 لاکھ پنجابی مارے جانے جانے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھو جانے کی وجہ سے پنجابیوں کے تباہ و برباد ھوجانے ' پاکستان کا گورنر سندھی کے بن جانے ' پاکستان کا وزیرِ اعظم ھندوستانی مھاجر کے بن جانے ' پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو ھو جانے اور مخالفت پر ملک دشمن تصور ھونے ' گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دے دینے ' پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ایک پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کردینے ' علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دینے کے بعد پاکستان میں پنجابیوں کا یہ حال تھا کہ؛ نہ تو پنجابیوں کے مفاد کے برخلاف پنجاب کی تقسیم ' 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کے بارے میں کسی سے بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پاکستان کا گورنر بنگالی کو نہ بنانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی قرار دینے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دینے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ بلکہ پنجابی آئندہ کئی نسلوں تک کے لیے سیاسی و سماجی اپاھج بن چکے تھے۔

No comments:

Post a Comment