Monday, 22 May 2017

پاکستانیوں کو آمریت اور جمہوریت کے تقاضے سمجھ نہیں آ رھے۔

پاکستان میں طویل عرصے تک آمریت رھنے کی وجہ سے آمریت کے ماحول میں پرورش پانے والی پاکستان کی عوام ' افسرشاھی ' بیوروکریسی ' سیاستدان ' صحافی ' صنعتکار ' زمیندار ' ٹھیکیدار اور تاجر جمہوریت کا نظام بحال ھوجانے کے باوجود آمریت اور جمہوریت کے ماحول میں انجام پانے والے امور کے درمیان فرق کو سمجھ نہیں پا رھے یا پھر آمرانہ نظام کے" ون مین رول" کے عادی ھو گئے ھیں۔

جمہوریت کے ماحول میں آئین میں تجویز کردہ فرائض و اختیارات کے مطابق ' پارلیمنٹ کے اپنے فرائض و اختیارات ھوتے ھیں صدر وزیر اعظم ' کابینہ وزیر ' پارلیمنٹ کے ممبر ' عدلیہ سمیت آئینی اداروں ' فوج سمیت حکومتی محکموں کے اپنے اپنے فرائض و اختیارات ھوتے ھیں۔ ھر ایک آئین اور قانون کے مطابق تفویض کیے گئے فرائض و اختیارات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ھے۔

آمرانہ نظام میں منتخب جمہوری پارلیمنٹ تو ھوتی نہیں ' آمر خود ھی نامزدگی کر کے یا سلیکشن کروا کر ایک فورم بنا دیتا ھے۔ اب نام اس فورم کا پارلیمنٹ یا کچھ اور رکھ دیا جائے۔ صدر بھی آمر خود ھی بن جاتا ھے۔ وزیر اعظم اور کابینہ بھی آمر خود ھی نامزد کرتا ھے۔ آمریت کے دور میں چونکہ آئین تو ھوتا نہیں ' اس لیے ادارے اور محکمے قانون کے مطابق تو کام کرتے ھیں لیکن آئین میں تجویز کردہ فرائض و اختیارات کے بجائے آمر کی مرضی و منشا کے مطابق۔

آمرانہ نظام میں چونکہ " ون مین رول" ھوتا ھے۔ اس لیے آمر کی مرضی و منشا کے مطابق امور انجام دینے پڑتے ھیں۔ جسکی وجہ سے خوشامد پرستوں اور مفاد پرستوں کی موج ھو جاتی ھے۔ جبکہ عوام ' افسرشاھی ' بیوروکریسی ' سیاستدانوں ' صحافیوں ' صنعتکاروں ' زمینداروں ' ٹھیکیداروں اور تاجروں کو نہ چاھتے ھوئے بھی خوشامد پرست اور مفاد پرست بننا پڑتا ھے۔ یہ اور بات ھے کہ خوشامد پرستی اور مفاد پرستی کی بعد میں عادت پڑ جاتی ھے۔

جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے اپنے فرائض و اختیارات ھوتے ھیں۔ صدر ' وزیر اعظم ' کابینہ ' وزیر ' پارلیمنٹ کے ممبر ' عدلیہ سمیت آئینی اداروں ' فوج سمیت حکومتی محکموں کے اپنے اپنے فرائض و اختیارات ھوتے ھیں۔ ھر ایک آئین اور قانون کے مطابق تفویض کیے گئے فرائض و اختیارات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ھے۔ اس لیے " ون مین رول" کی عادی عوام ' افسرشاھی ' بیوروکریسی ' سیاستدانوں ' صحافیوں ' صنعتکاروں ' زمینداروں ' ٹھیکیداروں اور تاجروں کو ' جو کہ محنت اور صلاحیت کے بجائے خوشامد پرستی اور مفاد پرستی کے عادی ھوتے ھیں۔ انکو جمہوری نظام میں چونکہ آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ھے ' جسکی عادت نہ ھونے کی وجہ سے جمہوریت کا ماحول انکو پریشان رکھتا ھے۔ اس لیے شعوری یا لاشعوری طور پر آمرانہ نظام قائم کرنے کی کوشش یا خواھش کرتے رھتے ھیں۔

No comments:

Post a Comment