مذھب
کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ" کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر
پختونخواہ ' بلوچستان کا نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ"
کا مسئلہ اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔ "دو قومی نظریہ"
پر ملک بننا تھا تو گنگا جمنا تہذیب والے خطے کی زمین اتر پردیش کو مسلم اتر
پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ وادیء سندھ کی تہذیب
والے خطے کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور وہ
بھی پنجاب کو تقسیم کرکے بننا تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔
پاکستان
کے قیام کے بعد پاکستان کے بارے میں "دو قومی نظریہ" کا ڈھنڈورا پیٹنے
والا طبقہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے کی یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس
لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم
کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے
مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر
قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد وادیء سندھ کی تہذیب
والے خطے پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ '
ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" کی نہ کوئی افادیت رھتی
ھے اور نہ کوئی اھمیت بلکہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے کی یوپی ' سی پی کی مسلمان
اشرافیہ کے پاس بھی اب "دو قومی نظریہ" کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی جواز
نہیں رھتا۔
بہرحال
اس وقت پاکستان میں دو مذھبی قومیں نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان
ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر ایک ھی مذھبی نظریہ والوں کی واضح
اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی و ثقافتی نظریہ کی بنیاد پر وادیء سندھ کی
تہذیب والے خطے کی چار قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں بھی
پاکستان کی شہری ھیں۔
پہلے
بھی "دو قومی نظریہ" وادیء سندھ کی تہذیب والے خطے ' پنجاب ' سندھ
' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ گنگا جمنا تہذیب والے خطے اتر
پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے
جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ وادیء سندھ کی تہذیب والے خطے
پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی
بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی
ھندوستانی برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔
چونکہ
پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں
میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے وادیء
سندھ کی تہذیب کے فروغ اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری '
گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی
ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ
گنگا جمنا تہذیب اور اتر پردیش کے "دو قومی نظریہ" پر بحث و مباحثہ
کرتے رھنے کی ضرورت ھے۔
No comments:
Post a Comment