وادئ سندھ
کی تہذیب قدیم مصر اور میسوپوٹامیا کے ساتھ
ساتھ دنیا کی تین پرانی ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک تھی۔ قدیم ویدوں میں وادئ سندھ کو “سپتا سندھو“ یعنی سات دریاؤں 1۔ سندھو(سندھ) 2۔ ودشتا (جہلم) 3۔ چندر بھاگا (چناب) 4۔ ایراوتی (راوی) 5۔ وپاس (بیاس) 6۔ شوتدری (ستلج) 7۔ سرستی (سرسوتی) کی سرزمین کہہ کر پکارا گیا ھے۔ چوھدری رحمت
علی گجر نے 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے
لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" وادئ سندھ کی تہذیب
والی زمین کے پانچ یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (فاٹا کے علاقے) '
کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا اور وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین اب پاکستان ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کو
پہلے سپتا سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا ھے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا اور دنیا کا چھٹہ بڑا ملک ھے۔ مسلم دنیا کا واحد اور دنیا کی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ھے۔ مسلم دنیا کی دوسری اور دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ھے۔ رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا تیتیسواں ' جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کا ترتالیسواں ' پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پچیسواں اور معیشت کے لحاظ سے دنیا کا چوتیسواں بڑا ملک ھے اور 2050 میں دنیا کی سولھویں بڑی معیشت ھوگا۔
سارے انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ھیں۔ آدم ؑ پاکستان یا وادئ
سندھ یا سپتا سندھو کی تہذیب والی زمین پر پیدا نہیں ھوئے تھے۔ اس لیے پاکستان میں
رھنے والے سارے کے سارے باشندے ھی باھر سے آکر سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی زمین پر
آباد ھوئے ھیں لیکن سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب کے قدیمی باشندے جنہوں نے سپتا سندھو یا وادئ
سندھ کی زمین پر تہذیب کو تشکیل دیا اور باھر سے آکر دوسرے باشندے اس تہذیب میں
جذب ھوتے رھے ' وہ پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو ھیں۔ جو پاکستان کی آبادی کا 85
فیصد ھیں۔ سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ بندی پنجابی خطے
(کشمیر اور شمالی راجستھان کا شمار بھی پنجابی خطے میں ھوتا ھے)۔ سماٹ خطے (گجرات اور
جنوبی راجستھان کا شمار بھی سماٹ خطے میں ھوتا ھے)۔ براھوی خطے۔ ھندکو خطے (گلگت
بلتستان کا شمار بھی ھندکو خطے میں ھوتا ھے) کے طور پر کی جاسکتی ھے۔ سپتا سندھو یا وادئ
سندھ کی تہذیب کے قدیمی
باشندے ھونے کی وجہ سے پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو کی تہذیب میں مماثلت ھے۔ صرف
ثقافت اور زبان میں معمولی معمولی سا فرق ھے۔ مزاج اور مفادات بھی آپس میں ملتے
ھیں۔ اس لیے ایک خطے کے باشندے دوسرے خطے میں نقل مکانی کی صورت میں اس ھی خطے کی
ثقافت میں جذب اور زبان کو اختیار کرلیتے رھے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ تاریخ سے ظاھر
ھوتا ھے کہ وادئ سندھ کی پانچ ھزار سالہ تاریخ میں انہوں نے کبھی ایک دوسرے کے
ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ ایک دوسرے کو ملغوب کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت انہیں پاکستان
کی 15 فیصد آبادی کی وجہ سے الجھن ' پریشانی اور بحران کا سامنا ھے۔ یہ 15 فیصد
آبادی والے لوگ ھیں؛ افغانستان سے آنے والے جو اب پٹھان کہلواتے ھیں۔ کردستان سے
آنے والے جو اب بلوچ کہلواتے ھیں۔ ھندوستان سے آنے والے جو اب مھاجر کہلواتے ھیں۔
مسئلہ یہ ھے کہ پاکستان قائم تو سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر ھے لیکن غلبہ گنگا جمنا
کی زبان و ثقافت اور افغانی و کردستانی بد تہذیبی کا ھو چکا ھے۔ یوپی ' سی پی
کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کراچی میں ' افغانی نزاد پٹھان خیبر پختونخواہ
اور بلوچستان کے پشتون علاقے ' کردستانی بلوچ ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' دیہی
سندھ اور جنوبی پنجاب میں اپنا تسلط رکھنا چاھتے ھیں۔ ان علاقوں میں پہلے سے رھنے
والے لوگوں پر اپنی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالاتری رکھنا چاھتے ھیں۔ خیبر
پختونخواہ میں ھندکو کی طرف سے پٹھانوں کا ' بلوچستان میں بروھی کی طرف سے بلوچ کا
' سندھ میں سماٹ کی طرف سے بلوچ کا اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی
مھاجروں کا مقابلہ کرنے کی ھمت اور صلاحیت نہیں تھی لیکن پنجابی بھی چونکہ کراچی '
بلوچستان ' دیہی سندھ اور خیبر پختونخواہ میں رھتے ھیں۔ اس لیے خیبر پختونخواہ اور
بلوچستان کے پشتون علاقے میں پنجابیوں کے ساتھ پٹھانوں کے ناروا سلوک کے بعد اب
پنجابیوں میں پٹھانوں کے لیے ناپسندیدگی پیدا ھوتی جا رھی ھے۔ یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے کراچی میں پنجابیوں کے ساتھ ٹکراؤ کے بعد پنجابی
قوم نے اب یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل
کرنا شروع کر دیا ھے۔ کردستانی بلوچ ' بلوچستان میں بروھی اور دیہی سندھ میں سماٹ
پر اپنی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالاتری قائم کرچکے تھے لیکن عرصہ دراز سے
بلوچستان اور دیہی سندھ میں پنجابیوں کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے اور اب جنوبی
پنجاب میں سرائیکی کے نام پر ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی کو
سرائیکی کے نام پر اکٹھا کرنے کی کوشش کرکے پنجابی قوم کو تقسیم کرنے اور سرائیکی
صوبہ کی سازش کرنے کی وجہ سے پنجابی قوم میں کردستانی بلوچوں کے لیے شدید غصہ پایا
جاتا ھے۔
پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان اب سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے قدیم
باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی کے علاوہ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانیوں اور دیگر
کا بھی ملک ھے۔ پنجابی قوم پاکستان کی اکثریتی آبادی ھے۔ پاکستان کی 60٪ آبادی
پنجابی ھے۔ پنجابی قوم کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
چترالی ' راجستھانی ' گجراتی اور دیگر کے ساتھ برادرانہ اور عزت و احترام والے
مراسم ھیں۔ پنجابی قوم کے پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ
برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم نہیں ھیں۔ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کے صرف پنجابی قوم کے ساتھ ھی نہیں بلکہ سماٹ ' ھندکو ' بروھی '
کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی اور دیگر کے ساتھ بھی
برادرانہ اور عزت و احترام والے مراسم نہیں ھیں۔ پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کو چاھیئے کہ نہ صرف پنجابی قوم بلکہ سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری '
گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی اور دیگر کے ساتھ بھی برادرانہ اور
عزت و احترام والے مراسم قائم کریں۔
دراصل پاکستان کے قائم ھوتے کے بعد سے افغانی نزاد پٹھانوں کو
پٹھان غفار خان ' کردستانی نزاد بلوچوں کو بلوچ خیر بخش مری ' 1972 سے بلوچ
سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کو عربی نزاد جی - ایم سید ' 1986 سے یوپی ‘ سی پی
کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو مھاجر الطاف حسین نے “Proxy of Foreign
Sponsored Intellectual Terrorism” کا کھیل ' کھیل کر اپنی “Intellectual Corruption” کے
ذریعے گمراہ کرکے ' انکی سوچ کو تباہ کردیا۔ اس لیے بلوچ ' پٹھان اور اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجر ' قوم پرست نہیں بلکہ مفاد پرست ھیں۔ ان بلوچوں ' پٹھانوں
اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے قوم پرستی کے نام پر پنجاب اور پنجابیوں
کو نشانہ بنایا ھوا ھے۔
بلوچ ' پٹھان اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اگر قوم پرست
ھوتے تو اپنی اپنی قوم کا شعور اجاگر کرتے ' اپنی اپنی قوم کا اخلاق بہتر کرتے '
اپنی اپنی قوم کا تعلیمی معیار بہتر کرتے ' اپنی اپنی قوم کو ھنرمند بناتے ' اپنی
اپنی قوم کی کاروباری صلاحیتوں کو بڑھاتے ' اپنی اپنی قوم کے دوسری قوموں کے ساتھ
تعلقات بہتر بناتے۔ لیکن ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی
مھاجروں نے پنجابیوں کے پنجاب کے بجائے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام جبکہ
پنجابی قوم کے بجائے پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کی کوششوں کا
ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے قوم پرستی کے نام پر پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل
کرنے کا راسته اختیار کر لیا۔ بلوچ ' پٹھان اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر
اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجاب اور پنجابیوں پر بیجا الزامات لگاتے رھتے ھیں۔
پنجاب اور پنجابیوں کو گالیاں دیتے رھتے ھیں۔ پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں دیتے رھتے
ھیں۔ پنجابی اس وقت نہ بلوچستان جا کر کاروبار کر سکتے ھیں ' نہ سندھ ' نہ خیبر پختونخواہ
اور نہ کراچی۔ جبکہ ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے
نہ صرف سماٹ ' بروھی اور ھندکو کی زمین پر قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلکہ پنجاب کی سیاست '
صحافت ' تجارت ' سرکاری نوکریوں اور زمیںوں پر بھی یہ بلوچ ' پٹھان اور اردو
بولنے والے ھندوستانی مھاجر قبضہ کرتے جا رھے ھیں جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی ' پیداوار اور معیشت میں اضافہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے تباہ و برباد کرنے میں لگے رھتے ھیں۔
جب تک پنجابی ' پنجاب کے بجائے پاکستان کی وکالت کرتے اور
پنجابی کے بجائے صرف پاکستانی بنے رھیں گے تو ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب
کون دے گا؟ پنجابیوں کو چاھیئے کہ اگر بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات درست ھیں تو
بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں پر ظلم اور زیادتیاں بند
کریں اور ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں پر کیے گئے
ظلم اور زیادتیوں کا حساب کتاب دیں۔ لیکن اگر بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کے پنجاب اور پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات درست
نہیں ھیں تو بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو پنجاب اور
پنجابیوں کو گالیاں دیتے رھنے ' پنجاب اور پنجابیوں پر جھوٹے الزامات لگاتے رھنے '
پنجاب اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھنے ' پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں دیتے
رھنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے
ھندوستانی مھاجروں کو پنجابی قوم پرست بن کر بھرپور جواب دیں۔
پٹھان ' بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی عادت بن
چکی ھے کہ ایک تو ھندکو ' بروھی اور سماٹ پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط
برقرار رکھا جائے۔ دوسرا پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے '
توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک
میل کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی استحکام کے خلاف سازشیں
کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن اس صورتحال میں پنجابی قوم کا رویہ مفاھمانہ
' معذرت خواھانہ اور لاپرواھی کا ھے۔ پنجابیوں نے اگر اب بھی پنجابی قوم پرست بن
کر ان بلوچوں ' پٹھانوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو حساب کتاب یا
بھرپور جواب نہ دیا تو پنجابی پھر پنجاب اور پنجابیوں کو تو تباہ و برباد کروا ھی
رھے ھیں لیکن پاکستان کو بھی تباہ و برباد کروا بیٹھیں گے۔ پاکستان کی تباھی اور
بربادی در اصل سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے قدیم
باشندوں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
راجستھانی ' گجراتی کی تباھی اور بربادی ھوگی۔
سپتا سندھو یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین یا پاکستان کو
تباھی و بربادی سے بچانے اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' کشمیری '' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کو گنگا جمنا کی زبان و ثقافت اور افغانی و کردستانی بد تہذیبی سے نجات دلوانے جبکہ بلوچ ' پٹھان اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط کو ختم کروانے کے لیے ضروری ھے کہ؛
پاکستان
میں واقع زمین کی تاریخ کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے اپنے اپنے
شاندار ماضی سے آگاہ ھوسکیں۔
پاکستان
میں واقع زمین کے باشندوں کی تہذیب کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے باشندے
اپنی اپنی شاندار تہذیب پر فخر کرسکیں۔
پاکستان
میں واقع زمین کے باشندوں کی ثقافت کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے
باشندے اپنی اپنی شاندار ثقافت کو اختیار کرسکیں۔
پاکستان
میں واقع زمین کے باشندوں کو انکی اپنی زبان میں نصاب پڑھایا جائے تاکہ اس زمین کے
باشندے اپنی اپنی شاندار زبان کو بولنا شروع کرسکیں۔
پاکستان
میں واقع زمین پر پیدا ھونے والی عظیم شخصیات کا نصاب میں بتایا اور پڑھایا جائے
تاکہ اس زمین کے باشندے اپنی اپنی عظیم شخصیات کے نقشَ قدم پر چل کر اپنی تہذیب کی
عزت ' اپنی ثقافت کا احترام ' اپنی زبان کو بولنے ' اپنی عوام سے محبت کرنے والے
بن جائیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کو ھیرو کے بجائے غاصب سمجھنا شروع
کردیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے راستے کی رکاوٹ بن جائیں۔ اپنی زمین
کی حفاظت کریں اور اپنے وطن کو ترقی یافتہ ' مظبوط ' مستحکم اور خوشحال وطن
بنائیں۔
No comments:
Post a Comment