پنجاب میں غیر تعلیم یافتہ ' کم تعلیم یافتہ ' زراعت سے وابسطہ
اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں رھنے والے پنجابی تو پنجابی بولتے ھیں۔ پنجابی ثقافت
اختیار کیے ھوئے ھیں اور پنجابی رسم و رواج کی پیروی کرتے ھیں۔ لیکن پنجاب کے شھری
علاقوں میں رھنے والی پنجابی اشرافیہ کی اکثریت کے نزدیک اپنی مادر ی زبان کے لئے
عزت و احترام نہیں ھے۔ اس لیے پنجاب اور پنجابی قوم کے لیے عزت و احترام اور اتحاد
و یکجہتی کا بنیادی عنصر یعنی پنجابی زبان ' پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان نہیں
ھے۔
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان ' جنہوں نے
برطانوی راج کے دور سے ھی پنجاب کے بڑے بڑے شھروں ' خاص طور پر لاھور ' پنڈی اور
ملتان پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کی تقسیم کی
وجہ سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کے مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ھو جانے کی
وجہ سے پنجاب کے بڑے بڑے شھروں کی اکثریتی آبادی بن گئے تھے۔ وہ بھی پنجابی قوم
اور پنجابی زبان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ھیں۔ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ ھیں۔ کیونکہ وہ
پنجابی بولتے ھیں ' اس لیے یہ اندازہ کرنا مشکل ھوجاتا ھے کہ وہ پنجابی ھیں یا
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ھیں۔.
پنجابی کا لبادہ اوڑہ کر اور خود کو پنجابی ظاھر کرکے ' یہ یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' پنجابیوں کو زبان کے بارے الجھن میں مبتلا
کرنے کا سب سے اھم ذریعہ بنے ھوئے ھیں۔ یہ پنجابی زبان کی تذلیل اور توھین بھی
کرتے رھتے ھیں اور اردو زبان کی حمایت میں پرپگنڈہ بھی کرتے رھتے ھیں کہ اردو زبان
پاکستان کے عوام کے لیے باھمی اتحاد اور رابطے کی زبان ھے۔ بلکہ اردو زبان
مسلمانوں کی زبان ھے۔ اسی لیے دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور
بریلوی مدرسوں میں مسلمان طلباء کو اردو زبان میں اسلام کی تعلیم دی جاتی رھی ھے۔
دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو
1893ء میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں برطانوی راج کے دوران ' اتر پردیش میں
قائم کیا گیا تھا۔ ان مدرسوں میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی۔ ان مدرسوں
کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین
کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے ' اپنی
جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے ' اپنی دنیا اور
آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی
گئی تھی اور غیر اردو زبان بولنے والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے
لیے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم
لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان پاکستان کا
وزیرِاعظم بن گیا۔ لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو
پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر ' پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی
پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' جنکا بنگالی زبان اور بنگال کی
ثقافت کے ساتھ بہت مظبوط ناطہ تھا اور اتر پردیش سے بہت زیادہ فاصلے پر ھونے کی
وجہ سے اتر پردیش کی زبان اردو اور گنگا جمنا کی ثقافت کے اثر سے بچے ھوئے تھے '
اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر ' 25 جنوری 1949 کو
پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل
کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد زوب میں پیدا ھونے والے اور پشاور میں
رھائش پذیر ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے
پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی
پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر اپنی
انتظامی گرفت مظبوط کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر
اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة
العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل مسلمان لاکر قابض کروا دیے ' جن کی
اکثریت یوپی ' سی پی والوں کی تھی۔ لحاظہ پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی
سیاست اور پاکستان کی صحافت پر مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری
ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ
نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔
پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض ھوجانے والے یوپی ' سی پی
والوں نے پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی
کرنے والے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر یوپی ' سی
پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لانے کی راہ ھموار کرنا شروع کردی
اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں ' ھندو
پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 1950 میں کئے گئے لیاقت - نہرو
پیکٹ کی آڑ لیکر یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو مھاجر کی بنیاد پر پاکستان لاکر
پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں میں
بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرکے زمینوں
اور جائیدادوں پر بھی قبضے کروا نے شروع کردیے۔ لحاظہ پاکستان کے قائم ھوتے ھی
پاکستان میں اقرباء پروری ' بے ایمانی ' بد عنوانی اور قبضہ گیری کی بنیاد رکھ دی
گئی۔
حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت میں اھمیت ' سرکاری نوکریوں
میں بھرتی کی سہولت اور معاشرہ میں عزت و احترام کے علاوہ اتحاد و یکجہتی بھی
چونکہ انہی قوموں میں ھوتی ھے ' جن کی زبان ' ثقافت اور رسم و رواج کا ریاست میں
غلبہ ھو۔ اس لیے پنجابیوں کے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے یوپی ' سی
پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے تو پنجابیوں کو زبان کے بارے الجھن میں
مبتلا کرکے ' پنجابی زبان کی تذلیل اور توھین کرکے اور اردو زبان کی حمایت میں
پرپگنڈہ کرکے اردو زبان کی اھمیت اور بالاتری کو برقرار رکھنے کے جتن کرنے ھی ھیں
لیکن پنجابی اشرافیہ کن وجوھات کی بنا پر اردو زبان کی حمایت اور پنجابی زبان کی
مخالفت کرتی ھے؟
پنجابی کا لبادہ اوڑھے ھوئے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے
ھندوستانیوں کے علاوہ ' وہ پنجابی جو پنجابی زبان کی مخالفت اور اردو زبان کی
حمایت میں ھیں ' وہ بھی پنجابیوں کی پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست '
صحافت میں اھمیت ' سرکاری نوکریوں میں بھرتی کی سہولت کے علاوہ معاشرہ میں پنجابی
قوم کے لیے عزت و احترام اور اتحاد و یکجہتی کے بنیادی عنصر یعنی پنجابی زبان کے
پنجاب کی دفتری اور تعلیمی زبان ھونے میں رکاوٹ ھیں۔ اس لیے کیا ان پنجابیوں کا شمار
بھی پنجاب اور پنجابی قوم کے دشمنوں کے طور پر نہیں کیا جانا چاھیئے؟
No comments:
Post a Comment